Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sondas Jameel/
  4. Bhook

Bhook

بھوک

کھانے کا ٹیسٹ اور مقصد آفاقی ہے۔ جن بنیادی اجزاء سے بنایا جاتا وہ بھی کم و بیش ہر جگہ ایک جیسے ہی ہیں۔ زمین سے نمکیات پانی اور آگ کے اوپر برتنوں میں کھیل ایک سا ہی کھیلا جاتا ہے بس قاعدے ہر جگہ کے مختلف رکھ لیے جاتے ہیں۔

اٹلی کے روم سے ساؤتھ افریقہ کے کیپ ٹاؤن کے پیزا کچن میں بننے والے پیزے کے اوپر کسی جانور کے گوشت، سبزی کے ٹکڑے خفیہ چٹنیاں اور پنیر کی قسم کی ٹوپنگ مختلف ہوسکتی ہے مگر پیزے کی بنیاد خمیر اور میدے کا آٹا ہر جگہ ایک سا ہی ہوتا ہے جس کا اوریجن زمین سے ہٹ کر کوئی دوجا نہیں۔

پیزا چھوڑیے دنیا کے کسی بھی کونے میں کتنی ہی کمپلیکس ڈش کو بنانے میں ہاتھ ڈالیں، فنڈامینٹل اجزاء گھوم پھر کے وہی ملیں گے، آگ پانی نہیں بدلتے۔

اگریکلچر میں آئے گرین ریولوشن کے بعد ہم نے اس سیارے پر اتنا اہتمام کرلیا کہ یہاں کھانے کی کمی نہیں ہوسکتی۔ زمین کی تہہ سے انسانی بھوک سے وافر نکالنے کے سارے طریقے ایجاد کرلیے۔ کھیتی کون نہیں جانتا اور زمین کی فراخ دلی ویسے مشہور ہے کہ جس کا چھوٹا سا نم دار ٹکڑا منھ سے نکلی لعاب دار گھٹلی بھی قبول کرکے پھل دار درخت دے دیتا ہے تو ایسے میں باقاعدہ تیار زمین پانی ہوا نمکیات کے اہتمام کے ساتھ غلے کی منڈیوں میں رونقیں مانند نہیں پڑ سکتی۔

خوارک کی اس پیداوار پر کیپٹلسٹ کتنی ہی مناپلی کرسکتا تھا۔ خوراک کو لگثری آئٹم بنا سکتا تھا، بنا دی۔ بھوک کی قیمت بڑھا سکتا تھا، بڑھا دی۔ اجزاء کی ہیر پھیر سے ڈش کا نام بدل سکتا تھا، بدل ڈالے۔ مگر پیٹ بھرنے کا طریقہ نیا ایجاد نہیں کرسکتا تھا جو امیر اور غریب دونوں میں یکساں چلا آ رہا ہے جس کا تدارک بھی ہر کلاس میں یکساں ہے یعنی سب کو بھوک لگنی ہے تو سب نے کچھ نہ کچھ کھانا ہے۔

پیسہ ہر مادی چیز کی بھوک بڑھا سکتا ہے مگر ایک وقت کے بعد خوراک سے بھرے پیٹ کے لیے مزید بھوک نہیں خرید سکتا، کھانے سے خوشبو آنا بند نہیں ہوتی مگر بھرا پیٹ کھانے سے اٹھتی اِس خوشبو کا اثر لینا چھوڑ دیتا ہے یہ خوشبو یہ اثر یہ سرور صرف خالی پیٹ محسوس کرسکتا ہے۔

ایسے میں مزید ایک نوالہ کھانے سے گریزاں پیٹ میں نقصان کس کا تھا؟ یقینا ان کا جو کھانا بناتے ہیں، ان کا جو کھانا سجا کر بیچتے ہیں۔ نقصان کے اس غیر ضروری احساس کے جاگنے پر نہایت سنجیدگی سے حل نکالا گیا۔ بھوک وہی رہنے دی کھانا کمرشل کردیا۔

گائے کو کس ماحول میں پالا، کونسا چارا دیا، کہاں کہاں کتنے باریک اور احتیاط سے کتنے کٹ لگا کر اس کا گوشت علحیدہ کیا گیا، کس پانی سے دھویا کونسے قدیم اور نایاب مصالحوں میں رکھا، کتنی آنچ بدل بدل کر پکایا اور پھر کس انداز میں پیش کیا اس پر حیران کن پریزنٹیشن ایجاد ہوئی، کھانے اور کھلانے کے لیے لباس الگ سے ترتیب دیے گئے، الگ سے جگہیں منتخب کرکے سجائی گئی، قمقموں اور روشنیوں سے نہلائی گئی اور ان کی خاص ترتیب کے زیرِ اثر کھانے کو حقیقی لطف سے جوڑا گیا، بے انتہا خوبصورت الفاظ میں کھانے کا زکر محفلوں کتابوں اور لٹریچر کا حصہ بنایا گیا۔ کھانا بھوک سے ہٹ کر لائف ٹائم اکسپیرئنس بتا کر کر کھلایا گیا مگر ایسا کب تک؟

صرف تب تک جب تک ریسٹورنٹ میں بیٹھے اُس رئیس کے معدے میں بھوک ہے، بھوکا اور کھلانے والا دونوں جانتے ہیں کہ بھوک کی اس آخر رمز پوری ہونے کے بعد کسے پرواہ کے کھانے میں استعمال ہوئے سیفرون کے پھولوں کی آمیزش ایران کی سرخ زمین سے کس احتیاط اور سرمائے کے ساتھ اس پلیٹ میں لائی گئی، گائے کس ماحول میں پلی کسی نفاست سے کاٹی گئی بھوک کے ختم ہوتے ہی یہ جاننے کی جستجو اور جان کر حیرانگی کی کیفیت دم توڑ دیتی ہے۔ کھانے کی بھوک کے آگے کی تشریح غیر ضروری نہایت مہنگی اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔

آخر میں کھانا جیسا بھی بنا ہو، کتنا ہی مہنگا اور سستا پڑا ہو مقصد پورا کردیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھوک سیر ہو جائے تو دنیا کی شرطیہ لذیز ترین ڈش سامنے رکھ دیں پوری دنیا کے چرب زبان تعریف پہ اتر آئیں ہاتھ کھانے کو اٹھ بھی جائیں تو معدہ قبولیت سے انکاری ہو جاتا ہے یہاں کیپٹلسٹ آج بھی بے بس ہے۔

Check Also

Be Mausami Ke Mausam

By Zafar Iqbal Wattoo