Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Sabrina Aur Surrender Kaur (1)

Sabrina Aur Surrender Kaur (1)

سبرینا اور سریندر کور (1)

ہم دونوں کی وآپسی کا وقت غالباً ایک ہی تھا کہ وہ مجھے اکثر ٹرین میں نظر آتی، عجیب آدھی سوئی جاگی سی، پژمردہ و نڈھال۔ میں کچھ وہمی بھی ہوں سو ہمیشہ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ میں ٹرین کی درمیانی بوگی میں بیٹھوں کہ تین ہی تو ڈبے ہوتے ہیں اس سرکلر ٹرین کے۔ شام کے اس سمے تقریباً سبھی سوار ہونے والے اپنے تھکے ٹوٹے جسموں کو چپ کی گھپا میں سمیٹے بے زار سے محسوس ہوتے، بشتر ٹرین کے جھکولوں سے اونگھتے اور جھٹکے سے بیدار ہوتے ہوئے۔

ہاں تو میں اس کی بات کر رہی تھی۔ وہ عجیب زرد رو سی تھی اور سیٹ پر بکھری سی پڑی ہوتی۔ ایک شام ٹرین میں بہت رش تھا اور میں اتفاق سے اس کی سیٹ کے برابر ہی کھڑی تھی، اس نے سیٹ پر سے اپنا بڑا سا بیگ اٹھاتے ہوئے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بیٹھتے ہی مجھے اس کے قریب سے صفائی والے محلول مسڑ کلین کا تیز بھپکا محسوس ہوا اور میں کراہ کر رہ گئ۔

پھر اکثر یہ ہونے لگا کہ میرے بوگی میں سوار ہوتے ہی وہ جوش سے ہاتھ ہلا ہلا کر مجھے اپنی جانب بلاتی اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس بو کو برداشت کرتے ہوئے اس کے پہلو میں بیٹھ جاتی کہ اس کے زرد تھکے چہرے پہ اس سمے جو قمقمے جگمگاتے تھے مجھ میں انہیں بجھانے کی ہمت نہ تھی۔ اگر وہ عمر چور نہیں تھی تو غالباً ہم دونوں ہمسن ہی تھے۔ اس کی انگریزی بڑی ٹوٹی پھوٹی تھی مگر مہاجرت اور درد کی زبان شاید بین الاقوامی ہوتی ہے۔

دیار غیر کی بےکسی کے سانجھے دکھ نے ہمیں قریب کر دیا اور اب مجھے مسٹر کلین کی تیز بو پر سانس روکنے کی مشقت سے نہیں گزرنا پڑتا تھا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ ہم مزاق و ذوق نہیں ہوتے ہیں مگر سختیء حالات کی یکسانیت آپ کو لڑی میں پروئی مالا کی طرح یکجا کر دیتی ہے۔ وہ شاید تیسری ملاقات تھی جب میں نے پانی کا لمبا گھونٹ بھرتے ہوئے اس سے اس کا نام پوچھا۔

"سبرینا "

یہ سنتے ہی مجھے اچھو لگ گیا کہ اچھے وقتوں میں دیکھی گئی یہ رومانوی مثلث کی کشاکش سے بھرپور فلم اور اس کی خوبرو ہیروئن نظروں میں پھر گئی۔ میرے اس غیر متوقع ردعمل نے جہاں اس کے زرد چہرے پہ مزید زردی کھنڈ دی وہیں مجھے شدید خفت سے دو چار بھی کیا، مگر وائے افسوس کہ ردعمل کا سنسناتا تیر جگر پاش کر چکا تھا اور اب میری ہزارہا وضاحتیں بھی بودی اور ناقص تھیں۔

وہ ہکلاتے ہوئے مجھے اپنا سواحلی زبان کا لمبا چوڑا نام بتانے لگی اور ساتھ یہ بھی کہ اس کے امیگریشن آفیسر نے آسانی کے لیے اسے سبرینا کا نام دیا ہے۔ سبرینا کینیا کے شمالی صوبے کے کسی افتادہ گاؤں سے تعلق رکھتی تھی اور کامرس میں گریجویشن کے ساتھ ساتھ بیوٹی پارلر کا کورس بھی کیا ہوا تھا۔ وہ کٹر با عمل کتھولک لڑکی تھی اور اپنے بڑے سے کنبے کی واحد کفیل بھی۔

یہاں کیلگری میں وہ کیلگری بورڈ آف ایجوکیشن میں ہفتے کے پانچ دن وائٹ ہارن کے ہائی اسکول میں جینیٹر کے فرائض انجام دیتی اور سنیچر اور اتوار کو کسی دیسی بیوٹیشن کی ہیلپر تھی۔ سبرینا کا باپ شاید صرف آبادی بڑھانے کے لیے دنیا میں بھیجا گیا تھا سو وہ سات نفوس کا اضافہ کرتے ہوئے کثرت نشہ کے باعث جہاں فانی سے رخصت ہوا۔ سات بہن بھائیوں میں سبرینا تیسرے نمبر پر تھی۔ دونوں بڑے بھائیوں نے باپ کی روایت کو تابندہ رکھتے ہوئے صرف نشہ کیا، اس کے علاؤہ کچھ نہ کیا۔

سبرینا نے کسی تگڑم سے کینیڈا کا امیگریشن حاصل کر لیا تھا اور اب یہاں ہفتے کے ساتوں دن کام کرتی اور اپنی ہڈی گھس گھس کر کینیا پیسہ بھیجتی اور تل تل مرتی۔ اس کے وجود پر ایک ابدی تھکن طاری رہتی اور آنکھیں نیند سے عاری تھیں۔ جن دنوں میری سبرینا سے ملاقات ہوئی تھی اس زمانے میں ہم دونوں ہی وقت سے آزمائے جا رہے تھے۔ سبرینا از حد پریشان تھی کہ بڑے بھائی نے بے وفائی کے شک پر اپنی گرل فرینڈ کو قتل کر دیا تھا اور اسے سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔

اس کی موت کو ٹالنے کی کوششوں میں سبرینا یہاں سے اپنی محنت شاقہ سے کمائی گئی رقم دھڑا دھڑ کینیا میں اپنے وکیل کو بھیج رہی تھی۔ میں ان دنوں ممی جی کی دائمی جدائی سے غم زدہ اور اپنی محبت کو اپنے دل سے جلا وطن کرنے کی کوششوں میں ادھموئی ہوئی جا رہی تھی۔ میں ڈار سے بچھڑی کونج تھی۔ عمر کی تیرھویں سیڑھی پہ قدم رکھا ہی تھا کہ تیرھویں کے پھیر میں آ گئ اور ڈیڈی جی نے امرتسر کی امرت دھارا کو چھوڑ کر اپنے ٹبر سمیت اس برف خانے کوچ کیا۔

مجھے اپنی سکھی سہیلیوں کے ساتھ ساتھ اپنی پیاری گائے بلو کو چھوڑنے کا شدید قلق تھا۔ کیلگری میں تلافی میں بلی بھی پالی پر بات نہیں بنی۔ وہاں میرا بھرا پرا خاندان تھا، حویلی اور حویلی میں بلو اور اس کا کٹا اور بہت سے دوسرے جانور بھی۔ امرتسر میں میری مست مگن زندگی تھی اور یہاں کابک نما گھر اور زندگی اور موسم کی سختیاں۔ گزرتے وقت کے ساتھ میں یہاں کے ماحول میں رچتی بستی گئی پر گھر میں گھٹن اور ڈسپلن بہت تھا۔

بسنے کو ڈیڈی جی اس مغربی دنیا میں آ کر بس گئے تھے پر گھر میں شدھ مشرقی رواج ہی رائج تھے۔ میں وہ کپڑے نہیں پہن سکتی تھی جو یہاں میری عمر کی لڑکیاں بالیاں پہنتی تھیں اور نہ ہی مجھے میک اپ کی اجازت تھی۔ پر وہی بات کہ تم چلو ڈالے ڈال، ہم چلیں پاتے پات، بھلا جوانی کی منہ زوری سے کون واقف نہیں؟

ممی جی سے چوری چھپے میرے اسکول بیگ میں میک اپ کا خوب سامان ہوتا اور میں نے اسکول لاکر میں جدید فیشن کے ایک آدھ جوڑے بھی رکھ چھوڑے تھے، بس مصیبت یہ تھی کہ چھوٹی کو پٹا کے رکھنا پڑتا تھا ورنہ وہ ممی جی کے آگے میرے سارے راز کھول دیتی اور پھر میری شامت آ جاتی۔ دراصل ممی جی کینیڈا آ کر بہت مذہبی ہو گئی تھیں، پابندی سے گردوارہ یاترا بلکہ زبردستی مجھے اور چھوٹی کو بھی اپنے ساتھ لے جاتیں۔

میں اور لڑکیوں کی طرح بال کٹوانے اور انہیں رنگنے کے خبط میں مبتلا تھی مگر ممی جی کی نا، ہاں میں نہ بدلی اور میرے پاس دل مسوسنے کے علاؤہ چارہ نہ تھا۔ اب یہ الگ بات کہ میرے کالے ریشم کے لچھے جو میرے گھٹنوں تک آتے تھے مجھے ہزاروں کے مجمعے میں ممتاز کرتے۔ اسکول میں لڑکیاں میرے بالوں کی دیوانی تھی۔ ان کا جوش اور پسندیدگی دیکھ کر اب میں بھی اپنے بالوں پر نازاں رہنے لگی تھی۔

بڑے بھائی جسونت نے یونیورسٹی میں داخلہ تو لیا پر دوسرے سیمسٹر سے پہلے ہی یونیورسٹی سے نکل کر ٹرک ڈرائیور کا اسپیشل لائسنس لیا اور کیلگری ٹو مونٹینا روٹ پر گڈس ٹرک چلانے لگا۔ ڈیڈی جی بھی شروع کے تین سال ٹرک چلاتے رہے پر ایک حادثے میں کمر پر لگی شدید ضرب کے باعث انہیں ٹرک ڈرائیوری چھوڑنا پڑی۔ انہوں نے مالبرو کے علاقے میں گروسری سٹور کھول لیا اور پھر ہم سب کو اس بزنس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

ممی جی صبح، میں اسکول کے بعد چار بجے سے سات بجے شام تک اور پھر ڈیڈی جی رات گئے تک شاپ پر ہوتے کہ وہ دکان پر دارو بھی رکھتے تھے۔ اب زندگی سے میں نے سمجھوتہ کر لیا تھا اور امرتسر اور بلو کہیں دور رہ گئے تھے کہ اب تو ان کا گزر خوابوں میں بھی کم کم تھا۔ اچانک سے وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا مگر نصیب کے لیکھ سے کون بچ سکا ہے، بھلا کبھی کیوپڈ کا تیر بھی خطا گیا ہے؟

جب میں گیارویں جماعت میں تھی تو تازہ تازہ لبنان سے محمد قاسم آیا، یعنی وہ آیا اور اس نے فتح کر لیا کہ مصداق۔ میں اس یوسف ثانی کے مقابل اپنے قدموں پہ کھڑی نہ رہ سکی اور ریت کی دیوار کی مانند ڈھ گئ اور اس کی طوفانی محبت کے بہاؤ میں بے بسی سے تنکے کی طرح بہتی چلی گئی۔ کم عمری کا عشق بھی بلا خیز اور جاں لیوا ہوتا ہے اور معاملہ دو طرفہ ہو تو ساری سدھ بدھ بھلا کر جلد ہی ٹاک آف دی ٹاؤن بن جاتا ہے۔

میرے اسکول میں اور بھی سکھ لڑکیاں تھیں، ان سے یہ خبر ان کے گھر اور پھر ان کی دہلیز پھاند کر ممی جی کے کانوں تک آ پہنچی۔ ممی جی نے مجھے بہت سمجھانے بجھانے کی کوشش کی، ڈیڈی جی اور جسونت کا ڈراوا بھی دیا مگر سب بے اثر رہا۔ محمد قاسم کے گھر والوں نے بھی اس کی راسیں کھینچنے کے تمام حربے آزمائے مگر سب بے سود کہ عشق سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

جب ممی جی سے معاملہ نہیں سنبھلا تو انہوں نے جسونت کو شریک راز کیا اور اس ظالم نے مجھے پل کے پل میں نیلا اودا کر دیا اور میں باوجود چھوٹی کے ہلدی چونے کی لپائی کے دو دن تک بستر سے ہلنے کے قابل نہ رہی۔ پھر ہم محتاط ہو گئے۔ ہائی اسکول ختم ہوا اور قاسم کا داخلہ ٹورانٹو یونیورسٹی کے انجینئرنگ فیکلٹی میں ہو گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ٹورانٹو جانا پڑا اور میں نے کیلگری یونیورسٹی کے بزنس کے شعبے میں داخلہ لے لیا۔

پڑھائی کے دباؤ اور دوری نے عشق کی شوریدہ سری پر گویا بند سا باندھ دیا مگر اب ہم لوگ حقیقتاً بہت زیادہ سنجیدہ ہو چکے تھے۔ مستقبل سے ضرور نا آشنا مگر ایک دوسرے کے ساتھ کے متمنی اور پر یقین بھی۔ ممی جی کا میری طرف سے دل صاف نہیں ہوا تھا اور وہ وقفے وقفے سے میری کلاس لیتی رہتی تھیں کہ ان کے لیے" مسلے داماد" کا تصور ہی سوہان روح تھا۔ ممی جی ادھر بہت بیمار رہنے لگیں تھیں اور طویل ٹیسٹوں کے بعد یہ روح فرسا خبر ملی کہ انہیں حلق کا کینسر ہے۔

میری دنیا اندھیری ہو گئی اور مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ ممی جی مجھے کتنی عزیز ہیں۔ میری راتوں کی نیند اور دل کا قرار ختم ہو گیا اور ان کی جدائی کا خوف میرے دل میں بکل مار کر بیٹھ گیا تھا۔

Check Also

Molvi Abdul Salam Niazi

By Zubair Hafeez