Karo Maharani Tum Ahle Zameen Par
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
آج کل کوئٹہ شہر اور سڑکوں، چوراہوں پر بہت چھوٹے چھوٹے بچے جن کے گریبان کھلے اور نہ پیروں میں جراب ہے اور نہ جوتا اور نہ ہی سر پر ٹوپی۔ سردی سے کانپتے آپ کی گاڑی کے پاس مانگنے آتے ہیں۔ آپ ان کے جھانسے میں مت آئیں اور نہ ہی ان کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائیرل کریں۔ یہ فراڈ ہیں یہ سب ایک مافیا کا حصہ ہیں۔ میں چند واقعات آپ سے شئیر کرتا ہوں۔
1۔ یہ بچے آپ کو ATM مشینوں، ادویات کی دکانوں کے سامنے ملیں گے۔ کچھ دن قبل میں نے ایک بچی کو تھڑے پر اداس بیٹھے دیکھا تو اس کی دلجوئی کے لئے اس سے پوچھا۔ کہ بچے آپ گھر کیوں نہی چلی جاتیں۔۔ اس نے کہا میرا ماما مجھے صبح یہاں چھوڑتا ہے اور یہ بیج اور چنوں کے پیکٹ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ شام کو اگر 1400 روپے نہیں لائے تو رات اسی تھڑے پر گزارنا پڑیں گے۔۔ اور میری ماں بیمار ہے میرا اس سے ملنے کو دل کرتا ہے۔۔ مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔۔ میں نے اسے سارے پیسے اسی وقت دئے اور کہا کہ جاو گھر کہتی ہے وہ سامنے چوک سے بس میں بیٹھوں گی۔۔
مجھے اس بچی سے لمبی گفتگو کرتے ہوئے دیکھ کر ایک رکشے والا قریب آکر کھڑا ہوگیا۔۔ میں نے اس بچی کو کہا تم جاو اس لڑکی نے رکشے والے کو دیکھا تو تیز تیز بات چھوڑ کر چوک کی طرف چل پڑی۔ میں نے رکشے والے سے پوچھا تم کیوں کھڑے ہو یہاں۔۔ تو وہ بولا غریب بچی تھی میں نے سوچا میں بھی مدد کر دوں۔۔ میں نے اس رکشے والے کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔۔ کچھ دیر بعد وہ لڑکی اس چوک سے آگے ویسی ہی اداس بیٹھی تھی۔۔ جب میں نے اس کو دیکھا تو وہ مجھے دیکھ کر بھاگی اور بس اسٹینڈ میں غائب ہوگئی۔۔ اب ہر روز اسے دیکھتا ہوں۔۔
2۔ چمن ہاؤسنگ کے کنارے پر بچے شیک چیونگ گم کا پیکٹ لے کر کھلے گریبان ننگے پاوں پھر رہے ہوتے ہیں۔۔ میری گاڑی کے پاس مانگنے آئے تو میں نے چیونگم خرید لئے۔۔ وہ آگے گئے آگے گاڑی والے نے دونوں بچوں کو 3 ہزار روپے دئے۔۔ جب وہ گاڑی والا چلا گیا تو میں ان دونوں کو پکڑ لیا اور کہا کہ تم کو پولیس کے حوالے کرتا ہوں تم لوگ چور ہو۔۔ تو وہ رونے لگے۔۔ میں نے کہا سچ بتاو تم لوگ کیسے کام کرتے ہو۔ وہ بولا صبح 7 بجے ہم14 یا 15 لڑکوں اور لڑکیوں کو کچلاک کے پاس فلاں علاقہ (بہت کچھ جان بوجھ کر نہیں لکھا جا رہا) سے لا کر چلیں ہاؤسنگ، چمن ہاوسنگ۔ جناح ٹاون، شہباز تاوں اور کوئلہ پھاٹک چوک پر چھوڑا جاتا ہے پھر ہم سب رات کو کبھی جناح تاون، کبھی شہباز تاون اور کبھی عالموچوک سے واپس جاتے ہیں۔
3۔ ایک بچی جناح روڈ، اور اس کے گردونواح میں روتے ہوئے پھرتی ہے۔ کہ میرے پیسے گم گئے ہیں۔۔ اب مجھے میرا چاچا مارے گا۔۔ یا اسی طرح کے بہانے بناتی ہے۔۔ معصوم سی بچی ہے لیکن آپ اسے ہر روز جگہ تبدیل کرتے اسی طرح روتے اور مانگتے دیکھیں گے۔۔
چونکہ یہ مافیا سردی اور چھوٹے بچوں کا استعمال کر کے ہماری سائیکالوجی سے کھیلتے ہیں۔ ہمیں اپنی سردی اور اپنی اولاد ان میں نظر آتی ہے۔۔ اور دل پسیجا جاتا ہے۔۔ اس طرح کئی لوگ ہزاروں روپیہ ان کو ایک ساتھ دیتے ہیں اور ان کا ایماں ہوتا ہے کہ انہوں نے زکواۃ یا صدقات کی مد میں یہ امداد کر دی چاہے یہ ضرورت مند ہیں یا نہیں اللہ قبول فرمائیں گے۔۔ بے شک اللہ ہی کی ذات قبول کرنے والی ہے لیکن۔۔ اللہ نے قرآن میں کچھ اصول واضح کئے ہیں ہم وہ تگ و دو نہیں کرتے بس لمحوں میں جذباتی فیصلہ کر کے ایک مافیا کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔۔
تو پھر صدقات و خیرات و زکواۃ کس کو دیں۔۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے، ترجمہ: صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے (التوبہ)
اور اسی طرح ایک جگہ ارشاد باری تعالی ہے کہ ترجمہ: خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔۔ (البقرہ)
اس مفہوم کی تشریح بخاری و مسلم کی حدیث پاک سے یوں ہوتی ہے کہ۔۔
حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مسکین وہ شخص نہیں ہے جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے اور لوگ اسے ایک لقمہ یا دو لقمہ اور کھجوریں دیتے ہیں بلکہ مسکین شخص وہ ہے جو اتنا بھی مال نہیں رکھتا کہ وہ اس کی وجہ سے مستغنی ہو اور اس کے ظاہر حالات کی وجہ سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ محتاج و ضروت مند ہے اسے صدقہ دیا جائے نیز لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنے کے لئے گھر سے نہیں نکلتا۔ (بخاری ومسلم)
آج کا دور خاص طور پر کرونا وائرس کے بعد کی معیشت اور خصوصا کرپشن مافیا کی لوٹ مار اور ہوش ربا مہنگائی نے ایک متوسط خوشحال طبقہ کو بھی مفلوک الحال کر دیا ہے۔ اب 50 ہزار روپے مہینہ کمانے والا شخص بھی مقروض اور تکلیف دہ زندگی گزار رہا ہے۔ 20 سے 25 ہزار والے تو سمجھیں فاقوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔۔ آج سے 9 سال قبل میں ڈرائیور کے ساتھ گھر جا رہا تھا کہ بیگم کا فون آیا کہ رات مہمان ہیں گوشت لیتے آئیں ڈرائیور کو بتانا بھول گئی ہوں وہ بچوں کو لینے چلا گیا ہے۔ میں چونکہ دفتر کے ڈرائیور کے ساتھ تھا تو اسے کہا کہ گوشت کی دکان پر روکو۔۔ وہاں سے گھر کے لئے گوشت لیا۔۔ اچانک ذہن میں آیا تو ایک کلو گوشت ڈرائیور کے لئے بھی لے لیا۔۔ گاڑی سے اترتے ہوئے اسے دے دیا اور گھر آگیا۔۔ دوسرے دن آفس میں کام کر رہا تھا تو وہی ڈرائیور آیا اور بولا سر آپ سے کچھ بات ہو سکتی ہے؟
میں نے کہا بالکل۔۔ کہو۔۔ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔۔ کہنے لگا صاحب خدا گواہ ہے ہمارے بچوں نے پچھے 8 ماہ سے گوشت کی شکل نہیں دیکھی تھی۔۔ کل بچے اور میری بیوی کی عید تھی۔۔ جتنے میرے بچے خوش تھے۔ میں صرف آپ کو دعا دینے آیا ہوں کہ "خدا آپ کو بچوں کا غم نہ دکھائے"۔۔ شائد میری بڑی سے بڑی خیرات کا اتنا فوری جواب مجھے کبھی نہیں ملا کہ وہ قبول ہوگئی ہے۔۔ اور یہ ہمارے وہ ڈرائیور تھے جن کی تنخواہ آج سے 9 سال قبل 19 ہزار روپے فی مہینہ تھی۔۔ آج کا اندازہ آپ اپنے ساتھ کام کرنے والے، ڈرائیوروں، مزدوروں، کارندوں، ملازموں کی تنخواہ سے لگا سکتے ہیں۔
بجائے اس کے کہ آپ ان سڑک پر مانگنے والے پروفیشنلز مافیا کو پروان چڑھائیں۔۔ اپنے وہ پیسے جو آپ نے پورے ماہ 5، 10، 50 روپے کی صورت میں دینے ہیں یک مشت اپنے کسی مزدور کو اس سردی میں گھر کے راشن۔ کپڑے، سوئیٹر، بچوں کے کپڑوں بچوں کی مٹھائی۔ گھر کے لئے گوشت کی صورت میں لے کر دے دیں۔۔ ان کا پردہ بھی رہ جائے گا اور آپ کا رزق بھی صاف ہو جائے گا۔۔
سب سے بڑی زیادتی ہم اپنے غریب رشتہ داروں کو اگنور کرکے کر رہے ہیں۔ صرف اپنی انا کی تسکین کی خاطر انہیں بھولے ہوئے ہیں۔ اس سردی میں ان بچوں کا خیال رکھیں جو آپ کے خاندان کا خون ہیں۔۔ اگر باہر خیرات کرنا ہی ہے تو یہ ٹھیلے والے، چھابڑیوں والے، یخنی والے، سموسے پاپڑ بیچنے والوں کو چلتے چلتے 1000 یا 500 جو آپ کی توفیق ہو دیتے جائیں یہ اپنے کاروبار میں لگائیں گے یا اس روز ایک اچھی سی روٹی گھر لے جائیں گے۔۔
عبیداللہ بن عدی بن خیاما کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، آپ ﷺ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے، انہوں نے بھی آپ سے مانگا، آپ ﷺ نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھا اور پھر نظر جھکا لی، آپ نے ہمیں موٹا تازہ دیکھ کر فرمایا: "اگر تم دونوں چاہو تو میں تمہیں دے دوں لیکن اس میں مالدار کا کوئی حصہ نہیں اور نہ طاقتور کا جو مزدوری کر کے کما سکتا ہو"۔ (ابن ماجہ)
دوستو۔۔ ایک باشعور قوم کی طرح اپنوں میں خوشیاں بانٹنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتاوا مقدر ہو۔ یاد رکھیں! یہ خدا کا خصوصی فضل و توفیق ہے کہ کوئی ہم جیسوں سے بھی مانگتا ہے، یا کسی ضرورت مند پر ہماری نظر جا پڑتی ہے۔۔ اور خدا کرے کہ کوئی سوالی بھی آپ کے اور ہمارے گھر و ذات سے خالی ہاتھ نہ جائے۔۔