Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Qurbani Ki Khalen

Qurbani Ki Khalen

قربانی کی کھالیں

صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی بھر میں ایک بار حج فرض ہے، اس موقع پر چونکہ اکثر لوگ حج تمتع کرتے ہیں اس لئے ان پر قربانی واجب ہوتی ہے۔ سنت ابراہیمی کی یاد میں مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانی کرتے ہیں، اس نفلی عبادت کے ثواب کے علاوہ بہت سے معاشرتی فائدے ہیں، قربانی کے جانور پالنے اور بیچنے کے عمل میں کئی شعبے اور بہت بڑی تعداد میں لوگ مستفید ہوتے ہیں روزگار ملتا ہے اور نظام معیشت چلتا ہے۔

قربانی کا اہم مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ آپ کے اردگرد آباد لوگوں میں اور قریبی رشتہ دار ان غریب نادار لوگوں تک جانوروں کا گوشت پہنچایا جائے جو سارا سال اپنی قلیل آمدن میں گوشت خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے یا اگر کبھی خرید لیں تو اس قدر قلیل ہوتا ہے کہ اس کا شوربہ بھی اس گھرانے کیلئے ناکافی ہوتا ہے۔ قربانی کا گوشت وافر مقدار میں ایسے لوگوں تک پہنچنا چاہیئے۔

اس عمل میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں، سب سے پہلے ایک یا زیادہ جانور خریدنا، انکی نمائش کرنا، انکی قیمتوں کا اعلان کرکے لوگوں میں اور علاقے بھر میں مشہور ہونا ایک رواج بن گیا ہے، بدقسمتی سے اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے جس سے قربانی کے جانور بھی غیر ضروری طور پر مہنگے ہو جاتے ہیں۔ پھر قربانی کر لینے کے بعد کہیں قربانی کے جانور کی رانیں اور دستیاں نمود نمائش کیلئے اپنے قریبی رشتہ داروں اور اپنے کاروباری مفادات کیلئے افسران کو بطور رشوت بانٹی جاتی ہیں تو کہیں لوگ بوریاں بھر بھر کر گوشت اکٹھا کرتے ہیں اور کئی ریسٹورنٹ ان سے سستے داموں خریدتے ہیں تاکہ عید کے بعد اپنے گاہکوں کو پکا کر کھلا سکیں۔

یہ سب کچھ فلسفہ قربانی سے بہت دور لے جانے والی خرابیاں ہیں۔ اسی طرح قربانی کی کھالیں بھی بہت سے لوگوں کی مالی امداد کا باعث بنتی ہیں، ہمارے ہاں قربانی کی کھالیں مختلف فلاحی ادارے اور مدارس اکٹھی کرتے ہیں جو انکے سالانہ اخراجات میں اہم حصہ ہوتا ہے۔ گزشتہ کچھ سال سے قربانی کی کھالوں کی قیمتیں بہت کم ہیں خصوصاََ مینڈھے (لیلے، نیل شیپ) کی نازک کھال کا تو خریدار ہی کوئی نہیں۔ عام لوگ اسے کھال کے کاروبار سے وابسطہ مافیا کا گٹھ جوڑ قرار دیتے ہیں، حالانکہ اسکی وجوہات بالکل الگ ہیں۔

اسلامی سال چونکہ عیسوی سال سے دس دن چھوٹا ہوتا ہے اسی لئے رمضان اور عیدیں بھی ہر سال دس دن پہلے آتی ہیں یوں چھتیس سال میں ایک چکر مکمل ہوتا ہے۔ یعنی اگر عید جون کے آخر میں ہے تو چھتیس سال بعد گھوم کر پھر جون کے آخر میں آئے گی۔ اسی وجہ سے جب سے عیدالالضحیٰ اگست میں داخل ہوئی اور بتدریج پیچھے آ رہی ہے تو عید کے ایام اور اسکے بعد سخت گرمی سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔

اول گھروں میں قربانی کے بعد کھال دھوپ میں یا نہایت گرم جگہ پر کئی گھنٹے پڑی رہتی ہے پھر یہ مدارس یا اداروں کے پاس گرم اور بند جگہ پر عموماً رات تک یا دوسرے دن تک پڑی رہتی ہیں۔ جب یہ کھالیں چمڑہ منڈی میں تاجروں تک پہنچتی ہیں تو ان میں گلنے سڑنے کا عمل شروع ہو چکا ہوتا ہے، مینڈھے (لیلے، میل شیپ) کی نازک کھال تو چند گھنٹوں کی گرمی میں مکمل تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سال سے چمڑہ بنانے کے کارخانے عید پر کھال خریدتے ہوئے اپنے پیوپاری سے خراب مال واپس کرنے کی شرط کیساتھ اور مال کی کوالٹی کے مطابق قیمت دینے کی شرط پر خریدتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید پر جانوروں کی قیمتیں تو بہت زیادہ ہیں لیکن کھالوں کی قیمتیں کم ہیں۔ اس چمڑہ سازی کی صنعت سے لاکھوں لوگ بلواسطہ یا بلاواسطہ جڑے ہوئے ہیں پھر لیدر انڈسٹری ہمیشہ پاکستان کی پانچ سرفہرست (ٹاپ فائیو) ایکسپورٹ سیکٹرز میں رہی ہے۔ اس کے لئے یہ کھالیں یعنی کچا چمڑہ نہایت اہم ہے اگر یہ معیاری اچھی کوالٹی کا ہوگا تو زیادہ زرمبادلہ کمایا جا سکے گا اسی صورت میں کھال کی زیادہ قیمت بھی دی جا سکے گی۔

ہر سال مہم چلائی جاتی ہے، بڑے بڑے مدارس اور فلاحی اداروں کو نمک لگانے کا تربیتی میٹیریل اور دیگر عوامل کے متعلق رہنمائی مہیا کی جاتی ہے کہ کھال کو خراب ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ان لوگوں نے سال میں صرف ایک بار یہ کام کرنا ہوتا ہے اور اسکے لئے ان کے پاس کلیکشن پوائنٹ تو بن جاتے ہیں لیکن ایسے ورکر اور عملہ نہیں ہوتا جو کھال کو بروقت نمک لگانے اور دیگر عوامل کا خیال رکھ سکے۔ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو مزید تقریباً آٹھ سے دس سال عید پر کھال کی قیمتوں کا معاملہ بہت تھوڑے رد و بدل کیساتھ یونہی رہے گا۔

اگر آپ اس قیمتی کھال کو محفوظ طریقے سے کارخانے تک پہنچانے میں حصہ لیں تو یقیناََ فرق پڑے گا، رہنمائی کیلئے تصویری چارٹ دیکھئے۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib