Takrar
تکرار
میں نے ایک اسکول میں نرسری کے بچوں کو پڑھایا۔ یہ اتنے چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا پہلا تجربہ تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ بچوں کو سکھانا اور یاد کروانا خاصا مشکل کام ہے۔ ابتداء میں مجھے بالکل سمجھ نا آئے کہ بچوں کو اتنا ڈھیر سارا سلیبس یاد کیسے کروایا جائے گا؟ پھر مختلف لوگوں سے مدد لینی شروع کی۔ معلوم ہوا کہ تکرار کی اصطلاح سے کام لیا جاتا ہے۔ نفسیات میں جب بچے کے ذہن میں کوئی بات محفوظ کرنی ہو، یا اسے کچھ سکھانا ہو تو بار بار اس کے سامنے اس بات کو دہرائیں۔ اس تکرار کو مختلف طریقوں سے استعمال کریں۔
چند دن میں بچے کو وہ بات ذہن نشین ہو جائے گی اور وہ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے دماغ میں محفوظ کر لے گا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نفسیات کا یہ اصول صرف بچوں کے لیے ہے سمجھدار اور عمر میں بڑے لوگ تکرار کو بالکل پسند نہیں کرتے، کم وبیش تمام لوگ ایک مرتبہ بات کو کہنا، سننا پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ صرف مخصوص حالات میں یا کہیئے، مخصوص بات کی تکرار عمر میں بڑے لوگوں کو پسند آتی ہے۔ ورنہ یہ لوگ تکرار سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
آپ پاکستان کی سیاست کو دیکھ لیں۔ عمران خان کی بربادی اور ناکامی کی ایک بڑی وجہ تکرار تھی۔ بار بار ایک ہی بات کو دہرانا، پھر جب وہ بیانیہ چل نا پائے تو دوسرا اختیار کر لینا۔ خوشامدی ٹولہ تو ان باتوں پر واہ واہ کرتا ہے۔ مگر عام عوام اکتاہٹ محسوس کرتی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں سوشل میڈیا بلکہ ہر قسم کا میڈیا دیکھ لیں۔ شاید ہی کوئی کونا بچا ہو، یا عمران خان کی تصویر، ویڈیوز اور تعریف نا لکھی ہو۔
ایسا لگتا تھا کہ پاکستان میں صرف ایک ہی شخص ہے۔ دوسرے تو صرف عمران خان کو سننے اور دیکھنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ان باتوں نے عمران خان کو بھی اپنی حدود پار کرنے پر مجبور کیا اور وہ خود کو ناگزیر سمجھنے لگے۔
سورہ فاتحہ قرآن کریم کی پہلی سورہ ہے۔ مسلمان کی نماز اس سورہ کو پڑھے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اس سورہ میں فرمایا گیا ہے کہ، تمام تعریفیں صرف اللہ رب العزت کے لیے ہیں۔ پھر بھی ہم انسان اپنی تعریف کا راگ سننے کے لیے مرے جا رہے ہوتے ہیں۔ کیا کچھ نہیں کرتے۔ لوگوں کو باقاعدہ ہائر کرتے ہیں۔ پیسے دے کر ان سے اپنی تعریف کرواتے ہیں۔
بلاشبہ انسان سے بڑھ کر بیوقوف اور خسارے میں کوئی نہیں۔ ہمارے سامنے زندہ مثال عبرت کا نشان بن کر موجود ہوتی ہے۔ مگر ہم پھر بھی اسی ڈگر پر چلتے ہیں۔
ہم نے تو ہمیشہ یہ سنا تھا کہ آپ نہیں بولتے، آپ کے کام بولتے پیں۔ دنیا خود آپ کو سراہنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ آپ کے لیے تالیاں لوگ اپنی مرضی سے بجاتے ہیں۔ مگر ہماری سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل نے ہر سیاست دانوں کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اتنی تعریف، اتنی تکرار کہ اللہ کی پناہ۔
میں نے بےنظیر بھٹو شہید کی ایک پرانی ویڈیو دیکھی، جس میں بلاول بھٹو زرداری کو نصیحت کر رہی ہیں کہ انسان کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ جو لوگ ظاہر سے متاثر ہوتے ہیں۔ انھیں خود پر اعتماد نہیں ہوتا۔ لفظوں کا ہیر پھیر ہو سکتا ہے، مگر مفہوم یہی تھا۔
سوچا کاش کہ یہ نصیحت دوسرے سیاسی خاندانوں نے بھی اپنے بچوں کو دی ہوتی۔ پھر اس کے بعد وزارت کا چھنکنا پکڑا دیتے اور ان کے بچے جی بھر کر اس کھلونے سے کھیلتے رہتے۔