Nanha Mujahid
ننھا مجاہد
اماں مجاہد کی ڈیتھ ہوگئی۔ میرے بیٹے نے مجھے گویا خبر سنائی۔ کیا میں حیرانگی سے بولی اور سوالیہ نظروں سے شوہر کی طرف دیکھا انہوں نے بھی تائید میں سر ہلا دیا۔ مجھے ایک دم ٹانگیں بے جان محسوس ہوئیں میں خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گئی اور انا للہ وانا الیہ راجعون زیر لب پڑھنے لگ گئی۔
مجاہد کون ہے؟ اس پہلے میں آپ کو یہ بتاتی ہوں کہ میرا اس سے تعارف کیسے ہوا۔ ایک دن گھر کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے تیرہ چودہ سال کاایک لڑکا کھڑا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی سلام کیا اور بولا آنٹی انکل ہیں؟ میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا نہیں مگر آپ کو کیا کام ہے؟ وہ انھوں نے مجھے کہا تھا کہ گھر آجانا۔۔ اسی دوران شوہر آگئے اور اسے ایک طرف لے جا کر بات کرنے لگے۔
میرے پوچھنے پر بتایا کہ ہئیر ڈریسر کی دکان پر جاب کرتا ہے۔ ساری دکان سنبھالتا ہے۔ کمیشن پر کام کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں گھر آ کر آپ کی اور آپ کے بیٹوں کی ہئیر کٹنگ کر دوں گا۔ مجھے تھوڑے کم پیسے دے دیں مگر مجھ سے ہی کام کروائیں۔ مجھے شدید کوفت ہوئی۔ گھر میں ہر طرف بال ہی بال محسوس ہونے لگے۔۔ غصے سے بولی کوئی ضرورت نہیں۔ گھر بلانے کی۔ آپ دکان پر ہی خود کو اس کا ذاتی گاہک شو کر دیں۔ شوہر نے کہا اچھا ایک مرتبہ بلا لیتا ہوں پھر منع کر دوں گا۔ خیر مجاہد آیا سب بچوں کی کٹنگ کی، شوہر نے بھی خط بنوایا اور مجاہد ہنستا مسکراتا اپنی قینچی، کپڑا اور بال سمیٹ کر یہ جا اور وہ جا۔ پچھلے سال چھوٹی عید پر پھر شوہر سے عیدی لینے آگیا۔ میں نے کہا دکان پر ہی عیدی دے دیتے۔ شوہر بولے منع کر رہا تھا کہ مالک اپنا حصہ مانگے گا۔ میں گھر سے لے لوں گا۔
میں خاموش ہوگئی۔ شوہر کو اپنا نمبر دے دیا کہ انکل مجھ سے ہی ہئیر کٹنگ کروایا کریں۔ پتا کر لیا کریں۔ میں چھٹی پر بھی ہوں گا تو آ جایا کروں گا۔
خیر یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ مجاہد کے مرنے کی خبر ملی۔ سب بچے اور میں اداس ہوگئی۔ شوہر سے کہا جا کر پتا تو کریں کیا بچہ بیمار تھا۔ ایک دم سے ڈیتھ کیسے ہوگئی۔ شوہر اس کے مالک سے گھر کا پتا پوچھ کر تعزیت کے لیے گئے۔ اور جو دردناک کہانی پتا چلی آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہے۔
مقبول احمد ندیم ٹاؤن نزد ہجویری چوک لاہور پر ایک کرائے کے گھر میں اپنے پانچ بچوں اور بیوی کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اکلوتی بیٹی شادی شدہ اور باقی چار بیٹے مختلف کاموں سے زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ رہے ہیں۔ مقبول احمد خود سیکورٹی گارڈ ہے۔ مجاہد سب سے چھوٹا تھا۔ بھائیوں نے تو میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہا مجاہد نے پانچویں کے بعد ہی پڑھنے سے انکا کر دیا۔ ہئیر کٹنگ کا کام سیکھا اور دکان پر نوکری کر لی۔ خوش اخلاق اور با تمیز تھا۔ روز شام کو گھر پیسے لاتا، ماں باپ کے لیے گرم دودھ لے کر آتا اور زبردستی انھیں پلاتا۔ ایک سال سے موٹر سائیکل چلانی سیکھ لی۔ مالک کے چھوٹے موٹے کام موٹر سائیکل کی وجہ سے بخوشی کرتا۔ ماں باپ منع کرتے تو ہنس کر ٹال جاتا۔ مقبول احمد نے مالک کو دکان پر جا کر منع کیا کہ اسے موٹر سائیکل نا دیا کریں۔ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ مالک نے بھی لاپرواہی میں ٹال دیا۔
اکیس دسمبر کی شام مجاہد اپنے مالک کی موٹر سائیکل پر اپنے گھر جارہا تھا۔ دھند شدید تھی۔ حد نگاہ کم ہونے کی وجہ سے سامنے موجود دیوار نظر نا آئی اور موٹر سائیکل دیوار سے ٹکرا گئی۔ توازن سنبھال نا سکا اور نیچے گر گیا۔ سر پر چوٹ لگی۔ کسی نیک دل راہ گیر نے فوراََ 1122 ریسکیو والوں کو فون کر دیا۔ مجاہد ہوش میں تھا بات بھی کر رہا تھا۔ 1122 والے پہنچے اور مجاہد کو انڈس ہاسپٹل سبزہ زار لے گئے۔ ہاسپٹل والوں نے جنرل ہاسپٹل ریفر کر دیا۔ اس دوران مجاہد کے ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ گھر والوں کو بھی اطلاع مل گئی۔ مجاہد مکمل ہوش و حواس میں رہا۔
تیسرے دن اس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئی ڈاکٹرز نے کہا کہ خون اس کے دماغ میں جم گیا ہے۔ اور 24 دسمبر صبح سوا سات بجے مجاہد اپنے سارے خواب اپنے مسقبل کے منصوبے دل میں لے کر خالق حقیقی سے جا ملا۔ مقبول احمد نے بتایا کہ میرے بڑے بیٹے کی شادی کا پروگرام بن رہا تھا۔ مجاہد اپنے پیسوں سے اپنے لیے ایک پینٹ شرٹ اور نو گز سفید کپڑا لایا۔ اور کہا کہ میں سفید شلوار قمیصیں سلواوں گا۔ وہی سفید کپڑا اس کا کفن بن گیا۔ یعنی مجاہد نے اپنے کفن کا انتظام بھی اپنے پیسوں سے کیا۔
جانتی ہوں، اگر میں مجاہد سے مل چکی نا ہوتی، اس کے بارے میں جانتی نا ہوتی، اور کسی کے قلم سے تحریر کی ہوئی یہ کہانی پڑھتی، تو نقاد بن کر فورا تبصرہ کرتی گھسی پٹی کہانی۔۔ ایسی کہانیاں تو ہر روز اخبارات میں نظر آتی ہیں۔ اس میں کون سی خاص بات ہے؟ لیکن میں کیا کروں؟ مجھے اس بچے کی آنکھوں کی چمک نہیں بھولتی جو گھر میں آکر کٹنگ کرنے کا سن کر اس کی آنکھوں میں آئی تھی۔
چند پیسوں کی عیدی لینے کے لیے اس نے گھر کے دو چکر لگائے۔ کتنے خواب ہوں گے۔ اس کے؟ آگے بڑھنے کے۔ ماں باپ کے لیے کچھ کرنے کے، جو بچہ ہر روز اپنے ماں باپ کو بلند آواز میں خدا حافظ کہہ کر جاتا تھا۔ جو انھیں گرم دودھ پلا کر خوش ہوتا تھا۔ وہ کمائی بڑھنے پر انھیں کتنی عیش کرواتا؟ پاکستان کے غریب طبقے میں تو بیٹے، بیٹے کم کمائی کے زرائع زیادہ ہوتے ہیں۔ جو اپنے غریب باپ کا سہارا بن کر اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔
مجھے یوں محسوس ہوا ننھا مجاہد نہیں مرا مقبول احمد کا ایک سورس آف انکم مر گیا۔ اس کی امید مر گئی۔ اب اسے اپنی باقی ماندہ امیدوں کے ساتھ جینا ہوگا۔
موت برحق ہے۔ ہر ذی نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہی ہے۔ مگر دل سوچتا ہے کاش پاکستان کا کلائمیٹ صاف ہوتا دھند قاتل دھند نا بنتی۔ کاش مالک نے مجاہد کو موٹر سائیکل نا دی ہوتی۔ کاش ڈاکٹرز خون جما دینے والی سردی میں اس کا خون جمنے نا دیتے۔ مقبول احمد کی زندگی اب (کاش) کے ساتھ ہی گزرے گی۔