Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Larai Ka Anjam

Larai Ka Anjam

لڑائی کا انجام

میں نے بی-اے کی طرح ایم -اے میں بھی فارسی کو آپشنل مضمون کے طور ہر رکھا تھا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اورئینٹل کالج میں سر چوہدری محمد اکرم صاحب سال دوم میں میرے فارسی کے استاد تھے۔ برف جیسی سفیدی داڑھی والے، استاد محترم جن کا مشفقانہ انداز ہر ایک کے لئے اتنا بھرپور تھا کہ تمام طالب علم خود کو ان کا قریبی اور پسندیدہ سمجھتے تھے۔

میری اپنے ایک کلاس فیلو لڑکے کے ساتھ شدید قسم کی لڑائی ہوگی۔ پچھتر کے قریب طالب علموں کا اردو ڈیپارٹمنٹ جس میں پچیس کے قریب لڑکے تھے۔ اور باقی لڑکیاں۔ ان لڑکوں میں لاہور کے صرف دو اسٹوڈنٹ اور باقی سب پنجاب کے مختلف قصبوں اور گاوں کے لڑکے تھے۔

میری ایک گاؤں کے لڑکے سے بحث بلکہ لڑائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سارے لڑکے، لاہور کی لڑکیوں کے دھتکارنے کا بدلہ لینے کے لئیے۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔ اور دوسری طرف میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار۔۔

بات پہلے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پھر پرنسپل تک پہنچ گئی۔ نا وہ پیچھے ہٹنے کو تیار اور ناہی میں۔

مجھے کچھ دن بعد سر محمد اکرم نے اپنے آفس بلایا۔ میرے استاد محترم نے جو باتیں اپنے مخصوص محبت بھرے انداز میں سمجھائیں۔ میں نے وہاں سے اٹھتے ہوئے ان باتوں کو پلو سے باندھ کر اٹھی۔ اور آپ یقین مانئیے زندگی میں بارہا ان باتوں نے مجھے پریشانی سے بچایا۔

استاد محترم نے فرمایا۔ سائرہ واقعے کی تفصیلات بتاؤ۔ میری بات توجہ سے سننے کے بعد انھوں نے فرمایا۔ کہ میری فلاں یونیورسٹی میں اپوائنٹمنٹ ہوئی وہاں اپنے ایک کو لیگ سے جھگڑا ہوگیا۔ اور جھگڑا اتنا بڑھا کہ بات گورنر تک جا پہنچی۔ ہم دونوں ہی برابر کے دشمن تھے اور کوئی بھی جھکنے کے لیے تیار نا تھا۔ جب گورنر صاحب نے ہمیں بلایا تو ہم دونوں اپنے ساتھ جن افراد کو لے کر گئے وہ بھی اپنی ایک ورتھ رکھتے تھے۔

غرض معاملہ سب کے سامنے رکھا گیا بحث ہوتی رہی۔ کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نا تھا۔ مگر معاملہ انجام تک تو پہنچنا ہی تھا۔ لہزا گورنر صاحب نے اپنی گارنٹی پر صلح کروا دی۔ اور مسئلے کو ختم کر دیا۔

اس بات سے میں نے یہ نصیحت پکڑی کہ جب انسان نے اپنی تمام قوت اور صلاحیت کو بروئے کار لانے کے بعد مزاکرات کی میز پر بیٹھ کر صلح کرکے ہی اٹھنا ہے۔ تو پھر ان اختلافات کو لڑائیوں تک بڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

سائرہ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں آپ معاملے کو بڑھائیں نا، آپ اس لڑکے سے بات نا کریں، مگر اپنی شکایت واپس لے لیں۔

کیوں کہ میں نے مقابلہ برابر کا کیا تھا۔ اس لئے میں نے کہا سر میں آپ کی بات کو مسترد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی وہی کروں گی۔ جو آپ فرمائیں گے۔

یہ واقعہ بتانے کا مقصد صرف یہ ہےکہ پاکستانی سیاستدان یہ بات آخر کب سمجھیں گے؟ کیا سیاست صرف ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے، دوسرے پر بلاجواز تنقید کرنے کا نام ہے؟

کیا سیاستدان اپنی ساری زندگی ایک دوسرے سے لڑتے گزار دیں گے؟ اور اسٹیبلشمنٹ کو استعمال بھی کریں گے اور ایک دوسرے پر اس کا مہرہ بننے کا الزام بھی لگاتے رہیں گے؟

پچھلی سات دہائیوں سے چلتے اس تماشے کا کوئی بخیر انجام ہے کیا؟

اس کا جلسہ، ہمارا جلسہ، ہمارا لیڈر تمہارا لیڈر۔۔ آخر یہ کب تک ہوتا رہے گا؟

اصل مسائل اور طرح کے ہیں۔ عوام کی حالت بری ہے۔ گرمیوں میں بجلی کے بلوں نے مار دیا اور اب گیس کا کم پریشر سردیوں کی کہانی لکھ رہا ہے۔ گورنمنٹ اسکولز میں اساتذہ آرہے ہیں اور بچوں کو گیٹ سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

جلسوں پر لگنے والے کروڑوں روپے یہ بتاتے ہیں۔ کہ پاکستان ایک غریب ملک ہرگز نہیں ہے۔ صرف عام آدمی کے ریلیف کے لئے سب کا دل تنگ پڑ جاتا ہے۔

آخر یہ سلسلے کب بند ہوں گے؟ خدارا اس ملک ہر ترس کھا لیں۔ آپس کی لڑائیوں کو ختم کر دیں۔ عوام۔ کو ریلیف دینے کا سوچیں۔۔ عوام تو صرف گزارش ہی کر سکتی ہے۔

Check Also

Kitabon Ki Faryad

By Javed Ayaz Khan