Khwahishat Ke Tareek Jungle
خواہشات کے تاریک جنگل
خواہشات اور امیدیں قدرت نے انسان کی فطرت میں رکھی ہیں۔ یہ اچھی یا بری ہو سکتی ہیں۔ مگر کوئی بھی انسان ان کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ پھر وہ انسان نہیں فرشتوں کی صف میں کھڑا ہو جائے گا، جو کہ ناممکن ہے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں کبھی رہبانیت اور خواہشات کو مارنے کا درس نہیں دیا۔ مگر ان کے حصول پر جائز عمل کی پابندی ضرور لگا دی۔ آپ ﷺ نے اچھا کھانا، اچھا پہننا، بیوی کی قربت سے لطف اٹھانا، دوستوں سے مشورہ لینا، حتی کہ جائز کھیلوں سے بھی نہیں روکا۔ آپ ﷺ ایک بہترین حکمران تھے۔ مگر پورے عرب پر حکمرانی کرنے کے باوجود عاجزی اور انکساری کا پیکر تھے۔ آپ ﷺ نے زندگی کے ہر مرحلے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے، صرف حدود و قیود بنا دیں۔ مسلمان اپنی محنت اور رب تعالیٰ سے دعا کے ذریعے جو جائز شے چاہے ضرور مانگے اور دنیا کی نعمتوں سے لطف اٹھائے۔ عام آدمی سے حکمران تک سب کو خواہشات کی تکمیل کی آزادی دی۔
مسئلہ تب ہوتا ہے جب جائز خواہشات پوری ہونے کہ بعد مزید کی ہوس میں انسان کی انکھوں پر لالچ کی پٹی بندھ جاتی ہے۔ یہ لالچ ہمارے دماغ اور ضمیر کو ایسی لوری سناتی ہے کہ گہری نیند ان کا مقدر بنتی ہے۔
اندازہ کریں کہ پاکستان کا ایک نامی گرامی شخص جسے دولت، محبت، شہرت، اور عزت اتنی ملی کہ دنیا میں چرچا ہوگیا۔ بیٹوں کی نعمت بھی عطا کی گئی۔ غرض قدرت کی فیاضی نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اب بجائے اس کے کہ وہ انسان ان نعمتوں سے لطف اٹھاتا اور اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتا۔ وہ مزید کی چاہت میں پاگل ہونا شروع ہوگیا۔
جب انسان کی زندگی میں بھرپور سکون آ جائے، تو کچھ لوگوں کو عجیب بے چینی ہونے لگتی ہے۔ ان کا دل چاہتا کہ حدود و قیود توڑ کر دیکھیں، پھر کیا ہوتا ہے؟
پاکستان کے صآحب اقتدارِ اور اشرافیہ ان مسائل سے شدید دو چار رہتے ہیں۔ اسی لیے انھیں اپنی فطرت جیسا ایک کھلاڑی نجات دہندہ دکھائی دینے لگا اور وہ آنکھیں بند کرکےاس کے پیچھے چل پڑے۔
انجام توقع کے عین مطابق ہوا۔ معصوم بھیڑوں کی طرح سب ایک ایک کرکے کھائی میں گرتے جا رہے ہیں۔ ان کو کچھ سنائی اور دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بے مقصد بولنے کے عذاب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ یہ جسے نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں وہ تو عام انسان کے درجے سے بھی کہیں نیچے ہے۔ مگر دل پر لگی مہریں یہ ماننے کو تیار ہی نہیں۔
کیا تھا جو یہ شخص جو مل گیا اس پر قناعت کر لیتا۔ اپنی حد سے باہر نا نکلتا۔ سیاست کی وادی پرخار میں قدم نا رکھتا۔ بائیس کروڑ لوگوں پر حکمرانی کی اندھی خواہش کو ذہن سے جھٹک دیتا۔ خواہشات کے گہرے اندھیرے جنگل میں نا بھٹکتا۔ جو نعمتیں ملیں ان سے لطف اٹھاتا۔ مزید کی چاہت میں ان کاموں میں ہاتھ نا ڈالتا، جو آتے ہی نہیں تھے۔
جس نبی ﷺ کی حدیثوں کا اسلامی ٹچ دیا جاتا تھا ان کی مبارک زندگی پر ہی غور کر لیتا تو آج ملک میں اتنی افراتفری نا ہوتی۔ بڑے بڑے لوگوں کے پردے چاک نہیں ہوتے۔ معاشرے میں کسی کی تو عزت قائم رہ جاتی۔
کسی کی عزت تار تار کرنا آسان کام اور دوسروں کا پردہ رکھنا مشکل کام ہے۔ کاش کہ کھلاڑی نما سیاست دان دوسروں کے پردے رکھ لیتا، انھیں ذلیل ورسوا نا کرتا۔ معاشرے میں بھرم رہنے دیتا۔ تو آج اس کابھی بھرم رکھا جا رہا ہوتا۔
ہم سب کے لیے مقام عبرت ہے۔