Faislon Ka Bojh
فیصلوں کا بوجھ
کافی سالوں پہلے میری مرحومہ خالہ کے بیٹے ہالینڈ سے پاکستان اپنی مسز اور تین چھوٹی بچیوں کے ساتھ آئے۔ یہ ہالیڈے ٹرپ تھا۔ میں اس وقت کالج سے فری تھی۔ اس لیے ان کے ساتھ کئی مرتبہ لاہور گھومنے پھرنے کا اتفاق ہوا۔ ایک مرتبہ ہم لاہور کے مشہور باغ، باغ جناح (لارنس گارڈن)گئے۔ سردیوں کے دن تھے۔ شام جلد ہوگئی۔ میرا سناٹے سے دل گھبرانے لگ گیا۔ بھائی نے مجھے دیکھ کر فوراً واپسی کا پروگرام بنا لیا۔
باغ جناح کی مشہور پہاڑیوں کے قریب سے گزرتے ہوئے، اچانک ان کی بڑی بیٹی نے ضد پکڑ لی کہ میں نے پہاڑی کو اوپر جا کر دیکھنا ہے۔ بھائی نے کہا بیٹا اندھیرا ہے۔ جانا مناسب نہیں مگر دس گیارہ سال کی بچی نے ضد پکڑ لی۔ بھائی نے کہا اچھا آپ اوپر جاؤ اور سیر کرکے واپس آجاؤ۔ ہم یہاں کھڑے ہو کر انتظار کر رہے ہیں۔ کیوں کہ ہم تو اوپر جانا نہیں چاہتے۔ بچی نے پہلے اپنے باپ کو پھر ایک نظر پہاڑی کو دیکھا اور خاموش ہوگئی۔ پھر بولی مجھے بھی نہیں جانا۔ بھائی بولے چلو پھر گھر چلیں۔
میں نے حیرت سے یہ سب کچھ دیکھا، کیوں کہ میں نے تو اپنی بڑی بہنوں کو بچوں کو آنکھیں نکال کر کسی بات سے منع کرتے دیکھا تھا اور اگر کوئی بچہ ضد کرتا، تو بغیر جگہ کا لحاظ کیے اسے ایسا تھپڑ جڑا جاتا کہ وہ گھر واپسی تک مکمل پر سکون رہتا اور گھر آکر بھی اسے کوئی لفٹ نا کروائی جاتی، بلکہ اس کے اس جرم کا قصہ باقی افراد کو سنایا جاتا اور سب کہتے بہت اچھا کیا۔ ایک کی بجائے دو تھپڑ لگانے تھے۔
بھائی اور بھابھی راستے میں نارمل انداز میں باتیں کرتے رہے اور بچی بھی بالکل نارمل رہی۔
میں نے گھر جا کر بھابھی سے پوچھا کہ اگر بچی اوپر چلی جاتی تو آپ کیا کرتے، ڈر نہیں لگا۔ یہ پاکستان ہے، یہاں تو فیملی کے ساتھ بھی بچیاں بعض حالات میں محفوظ نہیں ہوتیں۔
بھابھی نے جواب دیا کہ میری یہ بچی ہر بات میں ضد کرتی ہے۔ ہم یورپ میں رہتے ہیں۔ میں اس پر زبردستی نہیں کر سکتی۔ وہاں قانون کی بہت سختی ہے۔ اس کی اسکول ٹیچر نے مجھے گائیڈ کیا کہ اس کی ضد مان لی جائے۔ مگر فیصلے کا بوجھ بھی اسے ہی اٹھانے دیا جائے اور بتا دیا جائے کہ ہم آپ کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ اچھا برا آپ خود برداشت کریں گی۔ لیکن بھابھی اگر فیصلے کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہو اور کوئی نقصان ہو جائے؟
میں نے سوال کیا تو بھابھی بولیں ہم اسے اجازت ضرور دیتے ہیں۔ مگر اپنی نظروں کو مکمل طور پر اس کی ہر ایکٹیویٹی پر فوکس رکھتے ہیں۔ اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم اس کے ساتھ ہیں اور اس کی ہر بات کو واچ کر رہے ہیں۔ مجھے یہ انداز تربیت تو پسند آیا ہی ساتھ ہی اسکول ٹیچر پر حیرانی ہوئی۔ جو اپنے اسٹوڈینٹ پر اتنی توجہ دیتے ہیں۔
ہمارے پاکستانی معاشرے میں بہت خوبیاں ہیں۔ مگر کچھ خامیاں اتنی تاریک ہیں جو خوبیوں کی روشنی کو چھپا لیتی ہیں۔
ہمارے بیٹیاں تئیس، چوبیس سال تک ننھی بچیاں بنی رہتی ہیں۔ ہم ان کی ہر جائز، ناجائز بات مانتے ہیں مگر جب شادی کا مرحلہ آتا ہے تو ہم بالکل بھی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنی پسند سے یہ کام کر سکیں۔ ہمارے بیٹے پچیس سے تیس سال تک باپ پر انحصار کرتے ہیں اور ہر زندگی کے فیصلے کے لیے ان کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ لڑکے سوچتے بھی اپنے والدین کے ذہن سے ہیں۔ نتیجتا شادی کے بعد یہ کسی بھی لڑکی کی زندگی برباد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ہم نئی نسل کو نا فیصلے کا اختیار دیتے ہیں، اور نا ہی غلط فیصلوں کابوجھ اٹھانے دیتے ہیں اور پھر جب والدین میں سے کوئی اللہ کی رحمت میں چلاجائے، تو بڑے بڑے جری مرد بھی چیخیں مار کر اللہ سے شکوے شکایت کر رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ اب زندگی کیسے گزارنی ہیں؟ فیصلے کیسے کرنے ہیں؟ ہمارے بچوں کی تربیت والدین نہیں بلکہ بہت حد تک سوشل میڈیا کر رہا ہے۔ جس کا راگ خوبصورت اور کانوں کو بھلا لگتا ہے، سب لوگ قطار بنا کر اس کے پیچھے چلنا شروع ہو جاتے ہیں اور والدین بچوں کے آگے خود بچے بنے ہوئے ہیں۔ کیا لیڈرز کی بد زبانی یا غلط کام والدین کو نظر نہیں آتے؟ پھر وہ کیوں اپنے بچوں کو نہیں سمجھاتے۔ کہ غلط فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کی ہمت آپ لوگوں میں نہیں ہے۔ ایسے کاموں سے گریز کریں۔
آخر ہم والدین کو کب ہوش آئے گا؟ ہمیں اپنے مسائل سے نکل کر بچوں کو فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی تربیت ایسی کریں کہ وہ غلط لیڈرز کے بہکاوے میں آکر اپنی زندگیاں برباد نا کریں۔ انھیں غلط فیصلوں کے بوجھ کا بتائیں۔ تاکہ وہ اپنا اچھا برا خود سوچ سکیں اور اللہ رب العزت سے اولاد کے لیے دعا کریں۔ ان بچوں کو دوسروں کا آلہ کار نا بننے دیں۔ بلکہ دنیا میں انھیں اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت کے لیے صدقہ جاریہ بنائیں۔