Aik Makra Aur Aik Makhi
ایک مکڑا اور ایک مکھی
اس بات کا تعلق ادب سے ہر گز نہیں، جس نے بھی اسکول کا منہ دیکھا ہے اس نے علامہ محمد اقبال کی مشہور نظم ضرور پڑھی ہوگی۔ ایک مکڑا اور مکھی، یہ اردو نظم اقبال نے بچوں کے لیے لکھی تھی۔ بچپن میں جب بھی یہ نظم پڑھی ہمیشہ دلچسپ لگی۔ مکھی کے قابو میں آنے اور پھر مکڑے کی خوراک بننے پر ہنسی آتی تھی۔ لیکن عمر کی منازل طے ہوئیں، بچپن کا معصومانہ دور رخصت ہوا شعور کے سورج نے اپنی تندہی دکھائی اور پوری آب وتاب سے دکھائی۔ ہم سارا بچپن بڑے ہونے کے شوق میں گزارتے ہیں اور بڑے ہو کر بچہ بن جانے کی آرزو کرتے ہیں۔ کیوں کہ شعور بڑا ظالم ہے۔
اسی شعور کے زیر اثر جب کلیات اقبال کھولا اور نظر اس نظم پر پڑی۔ پڑھنے کے بعد سوچا، آخر اقبال نے یہ نظم بچوں کے لیے کیوں لکھی؟
کیوں کہ ان الفاظ میں تو حکمرانوں کے لیے اشارے ہیں۔ آپ تاریخ کے پلندے اٹھا کر دیکھ لیں۔ پھر چاہے وہ مغلیہ سلطنت ہو، یا سلطنت عثمانیہ ہو۔ یا دنیا کے کسی بھی خطے کی بادشاہت ہو، اس کے زوال اور اختتام کا ایک بڑا سبب، خوشامد تھی۔ خوشامد وہ مکھن ہے جو جو کسی چمچ یا چھری سے نہیں، بلکہ ہاتھوں کی انگلیوں سے لگایا جاتا ہے اور ان انگلیوں کی ملائمت میں ایسا جادو ہوتا ہےکہ دھیرے دھیرے گلے تک پہنچتی ہیں اور کیسے گلہ دبتا ہے، پتا ہی نہی چلتا۔ جب پتا چلتا ہے تو حکمران کو جھٹکا لگتا ہے، آنکھیں کھلتی ہیں اور وہ انقلاب زندہ آباد، کے نعرے لگاتا ہوا، حقیقی آزادی کی طلب میں سڑکوں پر نکل جاتا ہے۔
پاکستان میں اقتدار ایک جلتی ہوئی شمع ہے۔ جس کے ارد گرد پروانے دیوانہ وار گھومتے ہیں۔ کچھ نا سمجھ جل جاتے ہیں اور کچھ اپنے دائرے میں رہ کر روشنی سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
حکمرانوں کو حکمرانی کا نشہ ایسا لگتا کہ لا علاج مرض بن جاتا ہے۔ اس مرض کو بڑھاوا وہ خوشامدی ٹولہ دیتا ہے۔ جو ہر وقت حکمران کے اردگرد رہتا ہے اور جب تک اس کی مکمل بربادی نا کر دے پیچھے نہیں ہٹتا۔
اندازہ کریں پاکستانی حکمرانوں کی سراہے جانے کی خواہشات انھیں کیا سے کیا بنا دیتی ہیں؟ جس عوام کے خون کو چوس کر ٹیکسز کا پیسہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس پیسے کو اپنی تشہیر پر یوں خرچ کرتے ہیں جیسے خود کی ذاتی کمائی ہو۔ پاکستان میں اگر ذاتی کمائی عوام پر خرچ کرنے کا کوئی قانون اسلامی صحیفے کی طرح ہوتا تو شاید کوئی بھی اس کانٹوں کی سیج پر بیٹھنا بھی نہ چاہتا۔ انقلابی جدو جہد تو دور کی بات ہے۔
مگر پاکستان کے حکمرانوں کو ہر بات سے استثناء حاصل ہے۔ بس چند ماہ جیل کی ہوا کھا آئیں۔ پھر باہر نکل کر انقلابی لیڈر بن جائیں۔ آپ کو وزیر اعلیٰ، یاکسی بھی اہم عہدے پر پہنچنے سے کون مائی کا لال روک سکتا ہے؟ بس اسی اسٹیبلشمنٹ سے تعلق بڑھا لیں جن کے نام لے کر تنقید کیے بغیر آپ جلسہ اور اس کا جوش وخروش مکمل نہیں ہوتا۔
پاکستان میں حکمرانی کے لیے عقل، ذہانت کی ضرورت کم اور سیاسی ہتھکنڈوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بس آپ کا تعلق سیاسی خاندان سے ہو، جیل یاترا ہوئی ہو، پیسہ ہو اور ایک خوشامدی ٹولہ ہو، آپ حکمران بن گئے۔ اس کے بعد جو بھی ہو وہ آپ کے حق میں ہی جائے گا۔ اگر کرسی اقتدارِ سے کھینچ کر بھی اتارا گیا تو انقلاب کا دلفریب آپشن موجود ہی ہے۔
تو جناب جی بھر کر تصویریں کھنچوائیں اور پیسے دے کر دنیا کے طول و عرض میں لگوائیں۔ اپنے دل کی ہر حسرت پوری کر لیں۔ آپ کی عوام ہے نا آپ لوگوں کی خواہشات پوری کرنے کے لیے۔
جب آپ کا اقتدار ختم ہو جائے یا ختم کروا دیا جائے اور آپ کو یہ یاد آئے کہ میں نے تو عوام کی خاطر سمندروں میں بھی سڑکیں بنوائی تھیں اور پھر آپ اسی عوام کو یہ بتانے کے لیے جلسے کریں۔ تو اپنے آج کے دن بھی یاد کر لیجئے گا۔
پاکستان کے حکمران ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں۔ اقتدار کو طویل رکھنے کے لیے، تاریخ بنانے کےلئے جتنے بھی ہاتھ پیر مار لیں بے سود ہے۔
یہ دنیا فانی ہے اور اقتدار بے وفا ہے۔ کرسی اقتدار سے اترنے کی دیر ہے۔ لوگ اخباروں پر پکوڑے رکھ کر کھا رہے ہوں گے اور تصویریں پاؤں تلے کچلی جا رہی ہوں گیں۔ کاش کے پاکستان کے حلف اقتدار میں اقبال کی اس نظم کو روز پڑھنا لازم قرار دے دیا جائے۔
یاد رکھیں وہ خوشامد کے سریلے راگ جنھوں نے آپ کے کانوں میں رس گھولا ہوا ہے اور آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے۔ وہ خوشامد آپ کو مکڑے کی خوراک بنائے گی۔ کیوں کہ سدا بادشاہی صرف میرے اللہ رب العزت کی ہے اور انسان کے بھولنے پر اللہ تعالیٰ یہ بات یاد دلانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ عوام کے دیرپا اور ٹھوس منصوبوں پر توجہ دیں۔