Aik Hazar Gahr
ایک ہزار گھر
گزشتہ دنوں مریم نواز شریف نے لاہور کی عوام کے لیے ایک ہزار گھر بنانے کے لیے آسان شرائط پر قرضے دینے کا اعلان کیا اور عوام سے درخواستیں مانگ لیں۔ سوشل میڈیا کے زریعے معلوم ہوا کہ درخواستیں اتنی زیادہ موصول ہوئیں کہ تعداد ایک ہزار سے زیادہ کرنے کے متعلق سوچا جا رہا ہے۔
میں نے جب سے یہ خبر سنی، حیران ہوں۔ میں لاہور کی باسی ہوں۔ میرے ناقص حساب کے مطابق لاہور میں اس وقت چار طبقے ہیں۔ ایلیٹ کلاس جن کے پاس دو سے ڈھائی کنال سے کم گھر نہیں۔ ان گھروں میں چند افراد اور ملازمین کی بھرمار ہے۔ ان کا ایک کمرہ کسی غریب کے گھر کے برابر ہے۔ گھروں میں آکسیجن کے لیے لان بھی موجود ہیں۔ ان کے ملازمین کے لئے سرونٹ کوارٹرز بھی ہیں۔ اس لئے انھیں ایک ہزار گھروں کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ان اشرافیہ کی سوسائیٹیز کے باہر آہنی دروازے ہیں۔ جہاں عام عوام منہ اٹھا کر اندر بھی داخل نہیں ہو سکتی۔
دوسرا طبقہ مڈل کلاس جس کے پاس زیادہ تر گھر موجود ہوتے ہیں کیونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتا ہے۔ ان کے بچے اسی گھر میں جوان ہوکر شادیاں بھی کروا لیتے ہیں۔ بہت کم کوئی ذاتی گھر خریدتا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب گھر کا کوئی بچہ کمانے پردیس چلا جائے یا خوش قسمتی سے اچھی جاب مل جائے یا ذاتی کاروبار کر لے۔ مہنگائی نے اس طبقے کی سب سے زیادہ کمر توڑی ہے۔
تیسرا طبقہ لوئر مڈل کلاس ہے۔ یہ لوگ زندہ رہنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ یہ طبقہ پاؤں ڈھانپتا ہے تو سر ننگا ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں کو کوئی معجزہ ہی اپنا گھر دلا سکتا ہے۔ چوتھا طبقہ انتہائی پسماندہ ہے۔ جن کے دل میں اپنے گھر کی کوئی چاہت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ کماتے اور خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے دن پھر کماتے ہیں۔ پھر خرچ کرتے ہیں۔
اب لاہور کا زرا جائزہ لے لیں۔ آلودگی میں دنیا کی پہلی تین پوزیشنز میں آنے والا شہر۔ جس کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ آلودگی کی وجہ سے لوگوں کی عمریں کم ہو رہی ہیں۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس اتنی گنجان ہو چکی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ سانس لینا محال ہے۔ گھروں میں تازہ ہوا کے جھونکے اور سورج کی روشنی مل جائے تو غنیمت ہے۔
پتا تو چلے یہ ایک ہزار سے زائد گھر کدھر بنیں گے؟ لاہور والوں کی نفسیات ہے۔ یہ اپنا علاقے مرتے دم تک نہیں چھوڑتے۔ ان کے بزرگوں کا اپنا گھر چھوڑنا محال ہوتا ہے۔ یہ گھر بھی قریب کی گلیوں میں بنانا چاہتے ہیں۔ کیا کسی کو لاہور میں ایک ہزار سے زائد گھروں کی گنجائش نظر آرہی ہے؟ اگر یہ گھر لاہور کے گردونواح میں بنائے جا رہے ہیں، تو ان کو ڈیولپ ہونے میں بھی سالوں لگ جائیں گے۔ آپ یہ گھر لاہور کے علاؤہ دوسرے شہروں میں بنا لیں۔ کبھی آپ انار کلی، اچھرہ، رنگ محل، اندرون محلہ جا کر دیکھیں، سانس لینا دشوار ہے۔ نا کوئی پارکنگ، نا کوئی صفائی۔
آپ لاہور کے گلی محلوں کی صفائی پروگرامز کو فوکس کیوں نہیں کرتی ہیں؟ ڈیری فارمز کو فوکس کیوں نہیں کرتیں؟ جعلی اشیاء خور و نوش پر توجہ کریں۔ ہم زہر خرید کر استعمال کر رہے ہیں۔ یہی حالات رہے تو اگلے چند سالوں میں لاہور کا ہر عام بندہ پھپھڑوں، گردوں، اور کینسر کی بیماریوں میں مبتلا ہوگا۔
ایک طرف الیکڑک بسیں اور بائیکس دی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف تین گھنٹے سے زائد کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ اللہ کا واسطہ ہے اپنی ٹیم میں مڈل کلاس لوگوں کو صرف حقائق بتانے کے رکھ لیں، یا کبھی بغیر پروٹوکول کے، بغیر بتائے ان علاقوں کا دورہِ کر لیں۔ جہاں عام عوام سسک رہی ہے اور زندگی کو صرف گزار رہے ہیں۔
اس کے بعد آپ کا کبھی مسکرانے کو دل نہیں چاہے گا اور آپ ہر منصوبے کا سو مرتبہ جائزہ لیں گی۔ یاد رکھیں آپ کی بنائی ہوئی سڑکوں پر چلنے کے لیے، آپ کی بائیکس استعمال کرنے کے لئے زندہ اور صحتِ مند لوگ بھی ضروری ہیں۔