Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umm e Ali Muhammad/
  4. Umar o Ayar Ki Zambeel

Umar o Ayar Ki Zambeel

عمرو عیار کی زنبیل

بچے میرا اکثر مذاق اڑاتے ہیں کہ کہ یہ ہماری امی کا پرس ہے یا عمرو عیار کی زنبیل۔ مجھے کچھ مہینوں کیلئے سعودیہ جانا تھا۔ سفر اکیلے ہی کرنا تھا۔ بچے بار، بار رہنمائی کررہے تھے کہ کیا کیا چیزیں بالکل نہیں کرنی۔ اور کیا کیا کام ہیں جو ضروری کرنے ہیں۔

مثلاً میرے سارے ضروری کاغذات پاسپورٹ وغیرہ گلے میں لٹکانے والے لمبی اسٹرپ والے پرس میں ہونے چاہییں۔ رقم دو تین جگہوں پہ محفوظ طریقے سے رکھنی ہے۔ کوئی بھی کچھ پکڑائے کہ یہ تھوڑی دیر پکڑیں ابھی میں لی لوں گی، یا گا۔ تو کسی سے کچھ نہیں پکڑنا۔ وغیرہ وغیرہ

اور یہ کہ hand carry میں کوئی liquid نہیں رکھنا۔ کوئی ہتھیار نہیں رکھنا حتیٰ کہ چھوٹا چاقو یا کوئی لمبا کیل وغیرہ۔ میں نے سب کچھ اسی طرح سے کیا۔ جیسا کہ بچوں نے بتایا۔

میرے گھر میں روز مرہ استعمال والے میرے پرس کے اندر میرے سیل فون کے علاوہ، عینک، دوائیاں، لوشن، چھوٹا شیشہ، کنگھا، ایک آدھی لپ اسٹک، نیل کٹر، کچھ چھوٹے نوٹ (کرنسی)، بال پوائنٹ، چھوٹی ڈائری، کچھ بکسوئے سوئی دھاگہ اور مزید بھی کچھ چیزیں ہر وقت موجود ہوتی ہیں، اور وجہ اس امر کی یہ ہے کہ بار، بار اٹھنا مشکل ہوتا ہے تو ایک پرس اپنے ساتھ ساتھ رکھتی ہوں اور بار، بار بچوں کو آوازیں نہیں لگاتی۔

بچوں نے اور شوہر نے ایر پورٹ پہنچایا جہاں تک خود جا سکتے تھے وہاں تک میرے ساتھ آئے۔ پھر آگے بوڈنگ وغیرہ کے مراحل سے میں نے خود ہی گزرنا تھا۔ اگر چہ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن پھر بھی دل اندر ہی اندر کانپ رہا تھا کہ اکیلے سفر تو پاکستان کے اندر بھی بہت کم کیا اور یہ تو پاکستان سے باہر جانا تھا۔ ایک مرتبہ بورڈنگ ہو جائے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔

میں اپنے آپ کو حوصلہ دیتی ہوئی لائن میں لگی ہوئی جب مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے پرس اور دستی سامان کی چیکنگ والے کیبن تک پہنچی۔ اس اثناء میں بھاری بیگ وغیرہ کا الگ سے وزن کر کے مشین سے گزار کے کلیر کر کے آگے بھیجا جا چکا تھا۔

پرس میں دوائیاں اور بہت ضروری سامان تھا۔ جبکہ دستی سامان (hand carry) میں بچوں کے گفٹس، کوئی چھوٹی موٹی جیولری میری نواسی کیلئے ڈبوں میں بند کر کے رکھی ہوئی تھی تا کہ راستے میں ٹوٹ نہ جائیں۔

بچوں کے کچھ کپڑے جو بعد میں خریدے۔ غرض یہ کہ یہ چھوٹا بیگ بھی اسکی گنجائش سے زیادہ بھرا ہوا تھا اور چیزیں تین چار مرتبہ نکال کے رکھیں تب جا کے کہیں سیٹ، فٹ ہوئیں۔

میرا پرس تو گزر گیا لیکن جوں ہی ہینڈ کیری گزارا گیا مشین نے شور مچا دیا۔

لوجی۔ جو ڈرے وہ مرے۔۔

مجھے روک لیا گیا۔ اب باقی سارے مسافر مجھے گھورتے ہوئے جارہے ہیں۔ مجھے انہوں نے کیبن میں بلا کے بٹھا لیا۔ کہ جب تک آپکا سامان کلیر نہیں ہوگا آپ نے یہاں سے ہلنا نہیں۔

تین مرتبہ انہوں نے میرے دستی سامان کو مشین سے گزارا اور ہر مرتبہ مشین نے رولا ڈال دیا، اب انہوں نے مجھے پوچھا کہ کیا، کیا ہے اس دستی سامان میں؟

میں نے بہت مشکل سے رونے کو روک کے کہا "میرے پاس تو ہیروئن نہیں ہے"

اب انہی میں سے ایک خاتون نے میری کیفیت کو سمجھا اس نے بڑے نرم لہجے میں کہا "میڈم۔ آپ سے کس نے کہا کہ آپ کے پاس کچھ ایسا ہے۔ آپ کے سامان میں کوئی دھات ہے جو کہ hand carry میں رکھنے کی ممانعت ہے بس وہ بتا دیں کہ کیا ہے۔

اللہ اس خاتون کا بھلا کرے جس نے نرمی سے بات کی اور میرے کچھ اوسان بحال ہوئے۔ غور کیا تو یاد آیا کہ ضروری سامان جو میں ہر وقت ساتھ رکھتی اس میں ایک چھوٹی قینچی بھی ہوتی ہے اور جس کو میں نے پرس سے نکال کے ہینڈ کیری میں رکھ دیا تھا۔

اب انہیں بتایا کہ ایک چھوٹی قینچی ہے اس کے اندر۔

جس پہ کچھ لوگوں نے کہا کہ اسے ابھی نکال دیں نہیں تو پھر دوبارہ سعودیہ کے جس ائرپورٹ پہ آپ اتریں گی وہاں پھر آپ کیلئے مسلہ بنے گا۔ اور کچھ لوگوں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا جانے دیں۔ عمرہ کریں گی تو بال کاٹنے کیلئے رکھی ہوگی۔ جانے دیں۔ کچھ نہیں ہوتا، خیر جی بچ بچا کے قینچی سمیت گھر پہنچ گیے۔

پرس والی قینچی نے دو جگہوں پہ بہت مدد کی، جب عمرہ سے فارغ ہوئے تو بال کاٹنے کیلئے اپنے پرس سے اپنی قینچی نکالی۔ پہلے بیٹی کے بال کاٹے، پھر بیٹی نے میرے بال کاٹے، پھر ایک پاکستانی خاتون نے کہا تو اس کی بھی مدد کی، اس کے بعد مصری خواتین آ گئیں اور کہا کہ یہ 5، 5 ریال لیں اور ہم سب کے بھی تھوڑے تھوڑے بال کاٹ دیں۔

بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا کہ یہ قینچی پکڑیں خود ہی کاٹیں اور مجھے قینچی واپس کر دیں۔ اور دوسری مرتبہ جب کرونا ویکسین کیلئے گیے تو قمیض کے بازو اتنے تنگ کہ کہنی سے اوپر جانے سے انکاری۔ تو اپنے پرس سے اپنی قینچی نکالی احتیاط سے بازو کی سلائیوں کو کٹ لگا کے ادھیڑا۔ ویکسین لگوائی اور گھر جا کے دوبارہ آستین کو سلائی لگائی۔

نتیجہ یہ نکالا کہ بچے لاکھ کہتے رہیں کہ امی آپ وہمی ہوتی جارہی ہیں۔ اتنے وزن ہر وقت اٹھایے پھرتی ہیں۔ لیکن بوڑھوں کی باتوں کو اتنا بھی ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ ہر چیز کبھی نہ کبھی کار آمد ثابت ہو جاتی ہے۔

Check Also

Bachon Ki Tarbiyat Ke Liye Maar Peet Zaroori Nahi Hai

By Asma Hassan