Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umm e Ali Muhammad/
  4. Karne Ka Kaam

Karne Ka Kaam

کرنے کا کام

موسم گرما کی رات میں ایک وسیع گھر کے کشادہ صحن میں 6 سالہ بچی اپنے بابا کے بازو پہ سر رکھے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ باپ کے رخسار پہ رکھ کے غور سے کہانی سن رہی تھی۔

"بیٹا وہ بوڑھی عورت اپنا سامان باندھ کے مکہ سے باہر جانے والے راستے پہ بیٹھی تھی۔ اس کے دل میں یہی ڈر تھا کہ کہیں مکہ کا وہ آدمی اس کے پاس نہ آجائے۔ جس سے بات کرکے انسان اسی کا ہو جاتا ہے اور اپنے باپ دادا والے مذہب سے پھر جاتا ہے۔ جب ایک پر نور چہرے والا متین انسان اس بوڑھی خاتون کے پاس آیا اور اس سے پوچھا

"آپ کو کہاں جانا ہے لائیں میں آپ کا سامان اٹھا کے آپ کو چھوڑ آؤں، منزل پہ پہنچ کے اس عورت نے اس باوقار انسان کا شکریہ ادا کیا اور کہا "تم کسی بھلے گھر کے لگتے ہو، اپنا بہت دھیان رکھنا، آجکل مکہ میں ایک جادو گر آیا ہوا ہے اس سے بچ کے رہنا۔ وہ اپنی باتوں سے لوگوں کو اپنا بنا لیتا ہے اس کا نام "محمد ﷺ ہے"۔۔

جس پہ وہ شفیق انسان مسکرا کے بولے اماں میں وہی محمد ﷺ ہوں"۔

یہ کہانی ابا جی سنارہے تھے اور اس بچی کی آنکھوں کے سامنے مکہ کی گلیاں اور ان میں پیارے محمد ﷺ چلتے پھرتے نظر آرہے تھے۔ اس لڑکی کے کچے زہن میں آپ ﷺ کی محبت جاگ چکی تھی۔

جب ابا جی نے اسے بتایا کہ 5 سال کی عمر میں یثرب (مدینہ کا پرانا نام) میں ننھیال سے واپسی کے دوران "ابوا، کے مقام پہ اس" در یتیم، کی والدہ بھی اسے دنیا میں انہیں اکیلے چھوڑ کے چلی گئیں تو بچی کے آنسوؤں سے اس کے بابا کے بازو گیلے ہو چکے تھے۔

پھر وہ بچی کچھ بڑی ہوگئی سکول جانے لگی۔۔ اب پیارے نبی ﷺ کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ وہ قائدِاعظم کی زندگی انکی جدوجہد، انکی وقت کی پابندی، انکی زہانت، انکی حاضر دماغی اور حاضر جوابی، انکی بیماری اور انکے حوصلے کی کہانیاں اپنے ابا سے ہر رات سنتی تھی۔

اب اس کی زندگی کے آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے واقعات کے ساتھ ساتھ کچھ اور لوگوں کا بھی اضافہ ہوچکا تھا۔ اور اب ابا نے اسے گناہ اور ثواب کا شعور دینا بھی شروع کر دیا۔

اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں وہ ضرور دیکھتی کہ کیا اس کام کے کرنے سے ثواب ملے گا۔ جن میں جانوروں سے پیار کرنا، گھر میں موجود چاچا فیروز اور چھوٹے ملازم شیرعلی کو کھانے پینے کی چیزیں مہیا کرنا اور ان سے پیار سے رہنا ان سے اخلاق سے بات کرنا شامل تھے۔

اسی طرح گزرتے دنوں کے ساتھ وہ لڑکی بڑی ہوتی گئی۔۔ یہاں تک 1971 کا زمانہ آگیا۔

بھٹو کے دور میں جب وہ بچی چوتھی جماعت میں پہنچی تو اس کے ارد گرد کی دنیا کا ماحول ایکدم تبدیل ہوگیا۔ یہ زمانہ فنون لطیفہ کے عروج کا زمانہ تھا۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے راہروی کے بے شمار راستے، جن میں اخلاق سے گری ہوئی فلمیں، لٹریچر وغیرہ شامل ہیں بہت عام تھے۔

ہم لوگ آج کے دور کو اخلاوی گراوٹ کا بد ترین دور کہتے ہیں۔۔ لیکن اس زمانے کے بزرگ اس دور کے بچوں کےلیے اُس وقت کو بدترین کہتے تھے۔

آج کی نیٹ کی دوستیاں ان دنوں قلمی دوستی کی شکل میں موجود تھیں۔ آج کی اخلاق باختہ فلموں سے ملتے جلتے شو ان دنوں سنیما ہال میں چلتے تھے۔ لیکن ان تمام ادوار سے گزرتے ہوئے ہمیشہ بچپن کی راتوں کی سنی ہوئی کہانیاں کہیں لاشعور میں بیٹھ کے ہر برائی سے نفرت اور ہر نیکی سے محبت کرنے پر مجبور کرتی رہتی تھیں۔

ایک منصف، اللہ نے ہر انسان کے اندر بٹھا رکھا ہے۔ جس کو کبھی ہم ضمیر کے نام سے پکارتے ہیں، کبھی ایمان کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ ایمان کے پودے کا بیج ہر بچے کے دل میں قدرت نے رکھ دیا ہوتا ہے۔ اب اس بیج کی پرورش، اس کی دیکھ بھال، اس کو پانی دینا اس کے والدین کی زمہ داری ہے۔

دیکھیں۔۔ یہ بچے ہمارے پاس اللہ کی امانتیں ہیں۔ انکی تربیت، تعلیم، صحت، لباس، ان کی شخصیت کی تراش خراش کرنا، ہماری زمہ داری ہے۔ بچوں کے زہن میں کچھ فیڈ کرنے کیلئے بہترین وقت جو ریسرچ کے بعد بتایا گیا ہے وہ رات کو سونے سے پہلے جب بچے سوتی جاگتی کیفیت میں ہوں، والا ہے۔

پتہ نہیں پرانے زمانے کے بزرگوں کو یہ جدید ترین ریسرچ کون بتاتا تھا کہ وہ ہمارے بچپن میں ہمیں سوتی جاگتی کیفیت میں ہماری تربیت کررہے ہوتے تھے۔ اگر آپ کے بچے ابھی چھوٹے ہیں تو لازمی سونے کے وقت ان کے ساتھ ماں، یا باپ میں سے کوئی ایک موجود ہو۔

اس وقت موبائل آپ کے پاس نہیں ہونا چاہئے۔ ایک گھنٹے کا خالص وقت اپنے بچوں کو دیں۔ جس کی تیاری آپ نے پہلے کی ہوئی ہو، یہ بچے کی عمر کے مطابق کوئی اخلاقی کہانی، پاک صحابہ کی زندگی سے کوئی واقعہ یا کوئی حدیث ہو سکتی ہے۔

ربنا ہبلنا من ازدواجنا و زریتنا قرۃ اعین و اجعلنا للمتقین اماما

والی دعا روزانہ کی دعاؤں میں ضرور شامل کریں۔

اگر بچہ بڑا ہے اور بات نہیں مانتا تو عشا کی نماز کے بعد جب بچہ سو جائے تو اسکے سر والی طرف کھڑے ہو کے اول آخر درود شریف کے ساتھ "یا شہید" ایک تسبیح بلند آواز میں پڑھ کے بچے کو پھونک ماردیں۔۔ یاد رہے آواز اتنی بلند نہیں ہونی چاہئے کہ بچہ جاگ جائے۔

اللہ پاک ہماری اولادوں کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنادیں۔

Check Also

Apni Skills Khud Bechen

By Khateeb Ahmad