Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Jo Tanha Kar Gai Mujh Ko

Jo Tanha Kar Gai Mujh Ko

جو تنہا کر گئی مجھ کو

جس کتاب کی آج میں بات کرنے جا رہی ہوں یہ وہ کتاب ہے جس کا ذکر بہت سوں سے سن رکھا تھا۔ ادھر ادھر ڈھونڈنے کی زحمت سے بچنے کیلئے میں نے کتاب کے مصنف محترم سہیل پرواز کو جنہیں میں اب لالہ کہتی ہوں فیس بک پر میسج کر دیا کہ مجھے آپکی کتاب چاہیئے کہاں سے ملے گی؟

چند گھنٹوں بعد ایک شفیق سا مختصر میسج آیا کہ بیٹا یہ کتاب آپکو سنگ میل پبلیکیشنز والوں سے ملے گی۔

جواب سے تسلی بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا کہ میں جو نانی دادی بن چکی ہوں اسے انہوں نے کس آرام سے بیٹا کہہ دیا ہے۔ خیر، میں کہاں ادھار چھوڑنے والی تھی سو ایک اور پیغام بھیجا کہ اطلاع دینے کا شکریہ اور ہاں میں کوئی نوجوان دوشیزہ نہیں جسے آپ نے بیٹی کہہ دیا ہو بلکہ چھکے کی دہائی میں داخل ایک خاتون ہوں۔ خیال تھا کہ کوئی جواب نہیں آئے گا لیکن فوراً جواب آیا کہ میری اپنی بھانجیاں بھتیجیاں آپکی عمر کی ہیں جنہیں میں بیٹا ہی کہتا ہوں۔ برا لگا ہو تو الفاظ واپس لیتا ہوں۔

لیکن ان کے مختصر الفاظ میں بات کرنے کا انداز پڑھ کر مجھے بے اختیار اپنے اظہر بھائی یاد آ گئے۔

سوچا شاید یہاں فیس بک پر میری دانشمندی کو ٹھکانے پر رکھنے کیلئے رب نے ان صاحب کی شکل میں اظہر بھائی دوبارہ دے دیئے ہیں۔

تو بات کتاب کی ہو رہی تھی۔

احباب کا کہنا تھا کہ بہت کم مصنف اپنے قارئین کو اپنی تحریروں میں ساتھ لے کر چلتے ہیں اور سہیل پرواز ان میں سے ایک ہیں۔

میری اپنی بھی خواہش ہوتی ہے کہ جو لکھوں میرے پڑھنے والے اسے ایسے ہی محسوس کریں جیسے وہ سب انکے ساتھ بیت رہا ہوں سو میں نے جھٹ سے انکی کتاب "جو تنہا کر گئی مجھ کو" آرڈر کر دی۔

میں نے سوشل میڈیا سائٹس مثلاً فیس بک وغیرہ پر مختلف لکھاریوں اور قارئین کے لکھے تبصرے بھی پڑھ رکھے تھے۔ بھلے آپکو سرپرائز دینے والی شے آپکی پسندیدہ شخصیت ہو یا کتاب، لیکن اس کے سامنے آنے پر اپنی کیفیت کا اندازہ صرف آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا جب ایک شام کو ملنے والی ڈاک سے مجھے کچھ خطوط کے ساتھ چند کتابوں کے پیکٹ بھی موصول ہوئے۔ میں نے سب سے پہلے سنگ میل پبلیکشنز والوں کا پیکٹ کھولا جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ کتاب ہاتھ میں آئی تو افطاری میں صرف چند منٹ رہتے تھے۔

بمشکل مغرب کی نماز تک خود کو روک پائی اور اس کے بعد جب اس کا مطالعہ شروع کیا تو اپنا بچپن کا زمانہ یاد آگیا جب کتب و رسائل کا مطالعہ بستر میں چھپ چھپ کر کیا کرتے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مطالعہ سحری و نماز کیلئے مؤخر کرنا پڑا۔ فجر کی نماز اور تلاوت کے بعد پھر کتاب پکڑی اور ظہر کی نماز تک ختم کرکے ہی دم لیا۔

کتاب کیا ہے ایک سرکاراما ہے جس میں آپ جدھر نظر دوڑاتے ہیں آپکو لالہ اور رخسانہ بھابھی کی کامیاب زندگی کے سین نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ آپ 1970 کے دور میں داخل ہوگئے ہیں جہاں کہیں دل میرا دھڑکن تیری کے سین، کہیں ارماں، کہیں سالگرہ اور کہیں سلام محبت کے سین چلتے نظر آتے ہیں۔ جوں جوں میں کتاب میں آگے بڑھتی گئی میں لالے کے گھر کا فرد بنتی چلی گئی اور 2014 میں رخسانہ جی کے آخری سانس تک وہیں رہی۔

کتاب ختم کرکے میں تو واپس آگئی لیکن اپنا اداس اور ادھ موا دل وہیں چھوڑ آئی۔ مجھے علم نہیں کہ میں کب اس داستان کے سحر سے باہر نکلوں گی۔ نسل نو کے نوجوان شاید بن دیکھے محبت ہونے کے فلسفہ پر یقین نہ کریں یقین مانیئے کہ اس سچی کہانی کا ہیرو میرا لالہ اپنی نانی کی زبانی اپنی ایک کزن کے حسن کی تعریف سن کر بغیر دیکھے ہی اسے دل دے بیٹھتا ہے۔

کہانی کیا ہے پون صدی کے فون اور نیٹ کی سہولیات سے عاری دور کے ایک سچے پیار کی لازوال داستان ہے جس میں ایک فوجی افسر کی زندگی کی دشواریوں کا ذکر بھی ہے اور سرعت سے ہونے والی پوسٹنگز کی مشکلات بھی ہیں۔ کہیں دو پیار کرنے والوں کی محبتوں سے ایک کمرے کے مکان کو گھر بنانے کا ذکر بھی ہے اور محبت بھرے رشتوں کا تذکرہ بھی۔ سہیل پرواز اپنی شادی پر ملنے والی چھٹی کا قصہ بھی لطیف پیرائے میں بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح کمانڈنگ آفیسر سمیت سب افسران نے انہیں بے وقوف بنایا لیکن اپنی محبت پانے کیلئے انہوں نے ہر چیز قبول کی۔

رخسانہ بھابھی کی معصومیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ کرنل صاحب کوئٹہ پوسٹ ہوگئے۔ وہاں سے ایک دفعہ منگلا آئے تو ملنے چلے آئے۔ رمضان کا مہینہ تھا اور ہمارا لوو برڈز love birds کا جوڑا روزے سے تھا لیکن مہمان کا سفر کیوجہ سے روزہ نہیں تھا۔ لکھتے ہیں کہ بیگم کو معلوم ہوا کہ وہ روزے سے نہیں تو باوجود ان کے منع کرنے کے ملک شیک بنا لائیں۔ کرنل صاحب نے تعریف کی اور کہا کہ ایسا انوکھا ذائقہ دار ملک شیک تو آج تک نہیں پیا۔

یوں تعریف سن کر انہیں ایک اور گلاس زبردستی پلایا گیا۔ شام کو افطاری کے بعد جب بچا ہوا ملک شیک ہم دونوں کو پینے کا شرف حاصل ہوا تو معلوم ہوا کہ ملک شیک جگ میں پہلے لہسن ادرک بلینڈ ہوئے تھے اور بیگم نے جگ دھوئے بغیر اسی میں ملک شیک بنا دیا تھا۔

پہلی مرتبہ باپ بننے پر مصنف اپنے تاثرات کا بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "پہلی دفعہ باپ بننے کے احساس اور رب العزت کے شکر سے میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں تھے۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچا۔ فیملی وارڈ میں رخسانہ کونے والے بیڈ پر نڈھال، لیکن چہرے پر معصوم مسکراہٹ اور عجیب سا غرور سمیٹے لیٹی تھی۔ پاس ہی جھولے میں وہ گول مٹول، سرخ و سفید ننھی منی گڑیا تھی جس کی آمد کا مجھے بے تابی سے انتظار تھا"۔

اس کتاب کو اختتام تک پڑھتے ہوئے آپ ایک دور کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ وہ دور جو پرخلوص محبتوں، خط لکھنے سے شروع ہو کر نیٹ کے زمانے تک محیط ہے لیکن موت نے نہ تو قدیم زمانے میں انسان کو بخشا اور نہ ہی وہ کسی کو فی زمانہ معاف کرتی ہے۔ مصنف نے اپنی محبت کی شروعات سے لے کر شادی بچوں کی پیدائش اور پھر اپنی محبوب بیوی کے اس دنیا سے چلے جانے کے ہر، ہر لمحے کو جس خوبصورتی سے لفظوں میں قید کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

سہیل لالہ نے اپنی شریک حیات کو غزل کی صورت میں خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ انکی کتاب کا عنوان بھی اسی غزل کے ایک مصرعہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ اگر آپ سچ کا سامنا کرنے کی جرأت رکھتے ہیں تو اس کتاب کو ضرور پڑھیئے خصوصاً نسل نو اس کتاب میں بہت سی نصیحتیں پائے گی۔

فسردہ کر گئی مجھ کو، شکستہ کر گئی مجھ کو
کہ جس نے ساتھ دینا تھا، وہ تنہا کر گئی مجھ کو

بدلتے موسموں کا سحر رکھتا ہے مجھے مسحور
خزاں کی زرد رت کا سرد لمحہ کر گئی مجھ کو

ہمیں تو ساتھ چلنا تھا، ہمیں وعدہ نبھانا تھا
جھٹک کر وہ قبائے جان، دریدہ کر گئی مجھ کو

طویل اک ساتھ ٹوٹے، تو جہاں دل اجڑتا ہے
چھڑا کر ہاتھ وہ پل میں، تماشہ کر گئی مجھ کو

وہ جس آنگن میں رہتی تھی، کبھی چہکار سی اس کی
اسی آنگن کا وہ تنہا پرندہ کر گئی مجھ کو

خزینہ جس کی الفت کا سدا شاداب رکھتا تھا
وہ آنکھیں موند کر یکدم خرابہ کر گئی مجھ کو

ٹھٹھرتی سرد راتوں میں، جو میرے دل میں بستی تھی
بچھڑ کر موسم گل میں، وہ جاڑا کر گئی مجھ کو

فسردہ کر گئی مجھ کو، شکستہ کر گئی مجھ کو
کہ جس نے ساتھ دینا تھا، وہ تنہا کر گئی مجھ کو

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra