Lota
لوٹا
معلوم انسانی تاریخ میں "لوٹے"وہ واحد چیز ہیں جنہوں نے باتھ روم سے نکل کر حکومتیں بدل دی ہیں۔ وطن عزیز کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ بھی "لوٹوں " کی خدمات کی مقروض ہے۔
وطنِ عزیز میں آج کل "لوٹے" پھر جان محفل، مرکزِ نگاہ اور گفتگو کا محور بنے ہوئے ہیں۔ آخر کس طرح نل سے پانی کو گود میں بھر کہ مطلوبہ مقام تک پہنچانے والے سہولت کار اس اہم مقام تک پہنچے کہ ان کی رضا پانے کے لیے حکمران ہاتھوں میں چیک بکس اور شاہی خزانے کی چابیاں اٹھائے ان کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ آخر کس طرح "کیے کرائے پر پانی پھیرنے والا پرزہ حکومتوں کا کل پرزہ بن گیا؟
شنید ہے کہ ماضی میں جب گھروں میں پانی کے نل، واش بیسن اور وضو خانے کا رواج نہ تھا تو گھروں میں دو قسم کے لوٹے پائے جاتے تھے۔ ایک خوبصورت طیب و طاہر "لوٹا" جو نمازیوں کو وضو کرانے کا مقدس فریضہ انجام دیتا۔ جب کہ ایک باتھ روم کا لوٹا جو حاجت ضروریہ سے فراغت کے بعد خدمات پیش کرتا۔ وضو کروانے والا طیب و طاہر لوٹا عموماً چاندی، سٹین لیس سٹیل پیتل یا اور کسی قیمتی دھات کا بنا ہوتا تھا۔ نمازیوں کو وضو کروانے کے بعد عموماً یہ لوٹا کسی بلند مقام پر فائز ہو کر اونگھتا رہتا، گھر آنے جانے والوں کو نیم باز آنکھوں سے دیکھتا، یا ذکر و اذکار میں مگن ہو جاتا تاوقتیکہ کہ اگلی نماز کا وقت ہو جاتا۔
دوسری طرف باتھ روم میں فرائض کی بجا آوری کرتا لوٹا، مٹی، پلاسٹک یا لوہے جیسی گھٹیا اور کم ذات دھاتوں سے بنا ہوتا۔ کثرتِ استعمال اور اعمال کی سیاہ کاریوں سے اس کی شکل اور ہیت پر ایک نحوست سے طاری رہتی۔ فطری تقاضوں کے سامنے انسان کی بے بسی دیکھ دیکھ کر یہ لوٹے اپنی خودی مٹا چکے تھے اور دنیا کی بے ثباتی پر ایمان لا چکے تھے۔ حتٰی کے نسیان کے مرض میں مبتلا ایک بادشاہ وضو والے لوٹے کو باتھ روم ہی بھول گیا۔ کاش وہ جانتا کہ اس کے مرض کا خیمازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
طیب و طاہر لوٹے نے باتھ روم کی کثیف اور آلودہ فضا میں کچھ دیر تو دم سادھے رکھا۔ پھر اپنی موٹی موٹی خمار آلودہ آنکھوں کو گھما کر باتھ روم کا جائزہ لیا۔ لوہے کے بدرنگ اور بدہیت لوٹے کو دیکھ کر طیب لوٹے کو تو گویا ابکائی آ گئی۔
دوسری جانب جذبہ محبت سے لبریز، خاک نشین لوٹے نے نہایت ادب سے طیب لوٹے سے عرض کی۔
"اے لوٹوں کے سردار، لوٹوں کے سر کا تاج، اے پاک صاف لوٹے، اداس نہ ہو۔ اگر تقدیر کے جبر اور مالک کی غفلت سے ہمیں رفاقت کی چند گھڑیاں مل ہی گئیں ہیں تو کیوں نہ انہیں آپس کے دکھ سکھ کہنے سننے کے موقعہ کے طور پر برت لیا جائے۔ وہ فارسی میں کیا کہتے ہیں
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
لوٹا با لوٹا، باز با باز
طیب لوٹے کی نفیس طبیعت پر باتھ روم کے گھٹیا لوٹے کی بات بہت گراں گزری۔
اس نے حشمت سے کہا۔
اے بدبو کے گھر میں بسنے والے نیچ رہائشی۔ تمہاری جرات کیسے ہوئی خود کو میری جنس کا کہنے کی۔؟ کہاں میں سونے سے بنا ہوا خوبصورت مقدس برتن۔۔ جو مالک کو اپنے مالک کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے پہلے پاک بناتا ہے اور کہاں تو غلاظت کا بیوپاری۔
باتھ روم کے لوٹے نے جب مقدس لوٹے کی لن ترانی سنی تو بڑا ملول ہوا۔ آہ بھر کر بولا۔
سچ ہی کہتے ہیں
شود ہم پیشہ باہم پیشہ دشمن
اے میرے پیارے دوست کیا تو نہیں جانتا کہ اپنی خوبصورتی، خوشبو اور رنگت میں ایک جیسے ہونے کے باوجود کچھ پھول حجلہ عروسی کو مہکاتے ہیں جب کہ کچھ کے نصیب میں مردے کا کفن ہوتا ہے۔ سچ ہی کہتے ہیں کوئی جب تک کلام نہیں کرتا اس کی عقل و فہم کا بھرم قائم رہتا ہے۔ مجھے تو بتا تجھے جو مقام ملا ہے اس میں تمہارا اپنا کمال کتنا ہے۔؟
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
تو کیسے گھٹیا لوٹا ہے۔ جو اپنی چرب زبانی اور فارسی دانی سے مجھے نیچا دیکھانا چاہتا ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ فرائض کی فضلیت کے علاؤہ اجسام کی تراش خراش میں بھی میں تجھ سے افضل ہوں۔ مجھے حضرت انسان نے سونے سے بنایا ہے اور تجھے لوہے سے۔ پھر تو کیسے خود کو میرا ہم پلہ قرار دے سکتا ہے؟
طیب لیکن مغرور لوٹے کی بات سن کر لوہے کے لوٹے نے ایک مزید سرہ آہ بھری اور فلسفیانہ لہجے میں کہا۔
بزرگی بہ عقل است نہ بسال
اپنی بنت کے غرور نے شیطان کو بھی راندہ درگاہ بنا دیا تھا۔ میرا کام کچھ ایسا ہے کہ جس نے مجھ پر دنیا کی حقیقت کو چاک کر رکھا ہے۔ ورنہ میرا جیسا محرم راز اور دانا اگر دنیا کمانا چاہتا تو کیا کیا نہ پا لیتا؟
مغرور لوٹے نے جب باتھ روم کے لوٹے کی بات سنی تو بہت ہنسا اور اس پر خوب طنز کے تیر چلائے۔
تب ہی باتھ روم کے لوٹے نے غصے میں چیلینج کیا کہ اب تم سے اگلی ملاقات قصر شاہی میں ہی ہو گی۔
ملکِ خدا تنگ نیست، پائے گدالنگ نیست
جناب یہ ہیں وہ اسباب جن کی وجہ سے لوٹے غسل خانوں سے نکل کے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور تمام تر تدبیروں اور کوششوں کے آج کے دن تک واپس باتھ روم جانے پر آمادہ نہیں۔