Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Raza Ali Khan/
  4. Mian Sahib Ki Chaal Bhi Bekar Ja Sakti Hai

Mian Sahib Ki Chaal Bhi Bekar Ja Sakti Hai

میاں صاحب کی چال بھی بیکار جا سکتی ہے

مسئلہ صرف ایک ہے اور سیاسی بساط کا مہرہ بھی تنہا، شطرنج کی بساط میں تو 64 خانے اور 16 مہرے ہوتے ہیں، جن میں ایک وزیر، دو فیلے، دو گھوڑے، دو رُخ اور آٹھ پیادے ہوتے ہیں، ان سب کا ایک ہی وطیرہ ہوتا ہے اور وہ ہے بادشاہ کی حفاظت، مخالف حملہ آوروں کو روکنا اور ان پر حملہ کرنا ہے، یہ کھیل چالاکیوں پر مشتمل ہے، اور ذہین و فطین افراد ہی اس کھیل کی منطق سمجھ سکتے ہیں، ہر اناڑی کھلاڑی نہیں بن سکتا ہے۔

اس کھیل میں اہم مہرے گھوڑا اور وزیر ہوتا ہے، ہمارے ملک و ملت کی سیاسی بساط بھی فی الوقت ایسی ہی ناگہانی صورتحال سے دوچار ہے، سیاسی بساط کا ایک بادشاہ میدان جنگ میں موجود ہے اور دوسرا دیار غیر میں مقیم، ایک تن تنہاء ہے اور دوسرے کیلئے بے شمار چالیں تراشی جا رہی ہیں، ایک کے لئے پیادے جان جوکھوں میں ڈال رہے ہیں اور دوسرے کے وزیر بھی کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ نرالی اور بے وقعت منطقوں سے سرشار ہے، سیاست میں کھیل سیاسی چالوں اور چالاکیوں اور مکاریوں سے بھرے پڑے ہیں، پاکستان کی حالیہ سیاست بھی آجکل اسی دوہرے پر چل رہی ہے، آپ یہ کہہ سکتے ہیں یہ ایک پگڈنڈی ہے جس پر پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑ رہا ہے، ایک طرف بھرپور سیاسی اتحاد ہے جو اپنے سیاہ ترین ماضی کو ایک دوسرے کیخلاف فراموش کر چکے ہیں اور دوسری طرف عمران خان ہے جس کی سابقہ ساڑھے 3 سالہ غیر مقبول حکومت کو عوام فراموش کر چکی ہے۔

عمران خان کو جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو عمران خان کی مقبولیت اس سے قبل زمین بوس ہو چکی تھی، عمران خان کی تحریک اعتماد اقتدار سے بے دخلی پاکستان کی عوام نے مسترد کر دی تھی، اور عمران خان نے امریکہ مخالف ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جو شائد اب قصہ پارینہ بن چکا ہے اسی طرح مسلم لیگ نون جو مقبولیت کے عروج پر تھی اور "ووٹ کو عزت دو" کا بیانیہ تشکیل دیا اس کا دھڑن تختہ ہوگیا اور عوام نے عدم اعتماد جیسی آئینی چال کو مسترد کر کے جمِ غفیر کی صورت میں ہر شہر میں نکل کر عمران خان کے حق میں اپنا فیصلہ صادر کیا۔

ان گزشتہ 7، 8 ماہ میں عمران خان کی مقبولیت میں رتی برابر بھی کمی نہیں آ سکی، لوگ آج بھی عمران خان پر "صدقے واری" جا رہے ہیں، عمران خان کے لئے آج بھی اپنی جانوں کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں، یہ محض اتفاقیہ حادثہ تھا جس نے عمران کی "گڈی" ایک مرتبہ پھر چڑھا دی، آج سے سات ماہ قبل موجودہ پی ڈی ایم اتحاد عوام کی پریشانیوں، مسائل اور مہنگائی کیخلاف عمران حکومت کیخلاف برسرپیکار تھا اور آج صورتحال اس سے بھی "ابتر" ہو چکی ہے۔

متوسط طبقہ زبوں حالی کا شکار ہے لیکن موجودہ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے، مجھے اس بات کی شدید ترین حیرانگی ہے کہ اس حکومت نے عمران خان کو تو "زیر" کر دیا اور جس طرح کیا گیا وہ ہر کوئی جانتا ہے (یہ بات الگ ہے کہ اس پر اب فضول بحث کی جائے کیونکہ عزت و ذلت تو ربّ الکریم کے ہاتھ میں) ان حالیہ مہینوں کے دوران عمران خان کیخلاف درجنوں مقدمات درج کیے گئے۔

اس کیخلاف ایک بھرپور اور منظم تحریک چلائی گئی لیکن عوام نے عمران مخالف کسی بھی "بیانیہ" کو تسلیم نہیں کیا جس کا واضح ثبوت 17 جولائی کے صوبائی ضمنی انتخابات اور بعد ازاں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی صورت میں سامنے آیا، عمران نے تنہا پنجاب کے ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم چلائی اور عوام نے اس کو سرخرو کیا اور عبرت خیز شکست پی ڈی ایم اتحاد کو ہوئی جو پنجاب اور وفاق میں برسرِ اقتدار تھی۔

عمران خان کی مقبولیت کا اب یہ عالم بن چکا ہے اس کا ٹکٹ لینے کیلئے اندرون خانہ پی ڈی ایم اتحاد کے ممبران اسمبلی کی "رالیں ٹپک" رہی ہیں اور ان کی بھی یہ کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح آئندہ انتخابات میں عمران خان کی جماعت کا ٹکٹ مل جائے، اس لیے اب حکومت کیلئے جو سب سے بڑا سر درد بنا ہوا ہے وہ عمران خان کی ذات ہے۔

میں اپنے گزشتوں کالموں میں بھی یہ بات تسلسل کے ساتھ تحریر کرتا چلا آیا ہوں کہ عمران خان کا بحیثیت اپوزیشن لیڈر مقابلہ کرنا موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں عمران خان وہ زخمی "ببر شیر" ہے جو میدان سے کبھی راہ فرار اختیار نہیں کریگا وہ اپنے لوگوں میں ہمیشہ موجود رہے گا اور ڈٹ کر ہر مشکل اور کٹھن حالات کا مقابلہ کریگا۔ شائد اس بات کا ادراک موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت کو بھی تھا لیکن وہ عمران خان کیخلاف فی الوقت کوئی ایسا سیاسی بیانیہ تشکیل نہیں دے سکی جس کو بیان کر کے عمران خان کی مقبولیت کو کم کیا جاسکے۔

حالانکہ اس حکومت نے عمران خان کیخلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے، توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل کیا، میڈیا کے ذریعے اور ایک میڈیا گروپ کی طرف سے منظم انداز میں توشہ خانہ اسکینڈل کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے اس مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے، عمران خان کو بدنام کرنے کیلئے بشریٰ بی بی، فرح گوگی، توشہ خانہ، گھڑی چور کے نعرے لگائے گے لیکن عوام نے ان پر رتی برابر بھی یقین نہیں کیاحالانکہ پی ڈی ایم کی حکومت نے مفتاح اسماعیل کے ذریعے انتہائی مشکل فیصلے کیے اور بعد ازاں معیشت کو بہتر کرنے کے نام پر اسحاق ڈار کو برطانیہ سے امپورٹ کیا گیا۔

حکومت کا خیال تھا کہ وہ اسحاق ڈار کے ذریعے ملک کی معیشت کو بہتر کر لے گی لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی آج معیشت کی حالات یہ ہو چکے ہیں کہ اربوں ڈالرز کی ایل سیز کھل نہیں رہی جس سے امپورٹر کا اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، حکومت کا خیال تھا کہ اسحاق ڈار کو شطرنج کے گھوڑے کی طرح استعمال میں لا کر ملک کی معیشت اور مہنگائی کو کنٹرول کر کے عمران خان کی مقبولیت کو کم کیا جا سکے گا مگر حکومت اپنے اس مقصد میں بھی ناکام رہی۔

اسحاق ڈار نے بلند و بانگ دعوے کیے ڈالر کا ریٹ 200 روپے تک لانے کا اعلان کیا لیکن وہ بھی اس موجودہ حالات میں ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں، ان تمام غیر یقینی کی صورتحال میں عوام کی 75 فیصد رائے فوری الیکشن کی خواہاں ہیں لیکن موجودہ حکومت Level Playing Felied کے چکر میں ہے اس کی حکومت کی بھی آخری خواہش یہی ہے کہ عمران خان کے مقابلہ میں پی ڈی ایم اتحاد اپنا آخر مہرہ میرے عالیجاہ میاں نواز شریف کو الیکشن مہم کے سلسلہ میں میدان میں اتارا جائے۔

لیکن میرے عالیجاہ کو سب سے بڑا مسئلہ جو اس وقت درپیش ہے وہ ان کی گرفتاری اور جیل یاترا ہے کیونکہ میرے عالیجاہ جب بھی پاکستان کی پاک سرزمین پر اپنے قدم رکھیں گے وہ فوری طور پر گرفتار ہو جائیں گے حالانکہ میری ذاتی خواہش ہے کہ میرے عالیجاہ کو بھی انتخابی مہم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے کہ بہرحال اس حوالہ سے بے شمار قانونی نقط اعتراض موجود ہیں۔

بالفرض اگر مان لیا جائے کہ میرے عالیجاہ کیلئے تمام قانونی مسائل کو حل کر لیا جائے گا لیکن میں آپ کو یہ بات مکمل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پی ڈی ایم اتحاد اپنے اس آخری مہرے کی چال پر بھی ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکے گی، اگر اس پر کچھ قدرے فرق پڑا بھی تو وسطی پنجاب کے چند ایک حلقوں پر میاں صاحب کی الیکشن مہم کا مثبت نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے۔

کراچی سے گلگت تک اورگوادر سے کشمیر تک عمران خان مقبول لیڈر بن چکے ہیں، اس وقت عمران خان کا مقابلہ 13 رکنی سیاسی اتحاد سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ تن تنہا عمران خان کو پسند کر رہے ہیں اگر یہی حکومت الیکشن میں الگ الگ مقابلہ کی صورت میں بھی الیکشن میں جاتی ہے تو عوام اب اس قدر باشعور ہو چکی ہے کہ وہ اس صورتحال میں بھی عمران خان کو ووٹ دینا پسند کریگی، حالانکہ حکومتی اتحاد کے بڑے یہ بات واضع طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہمارا ارادہ اگلے انتخابات کو اتحاد کی صورت میں لڑنے کا ہے۔

اب آپ اندازہ کریں، گزشتہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں پشاور سے لیکر کراچی تک عمران خان کے مدمقابل پی ڈی ایم اتحاد کی بڑی سیاسی قوتوں کے امیدواروں کے درمیان عمران خان کا تنہا مقابلہ تھا، اگر یہ بات مان لی جائے کہ کے پی کے کے کچھ حلقوں سے جے یو آئی ف اور اے این پی، سندھ سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم، بلوچستان سے باپ پارٹی، سردار اختر مینگل اور مولانا فضل الرحمٰن، اسی طرح وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب سے مسلم لیگ ن اور جنوبی پنجاب سے پیپلز پارٹی تحریک انصاف کیخلاف اپنا اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہے تو یقیناََ عوام کی ہمدردیاں عمران خان کے ساتھ ہونگی اور عوام کی یہ دوبارہ خواہش ہوگی کہ وہ عمران خان کو دوبارہ وزارت عظمیٰ کے کرسی پر دیکھ سکیں۔

اس لیے میرا ذاتی تجزیہ یہ ہی کہتا ہے کہ عمران خان جو الیکشن کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں حکومت کسی بھی صورت عمران خان کا یہ مطالبہ نہیں مانے گی اور چاہے عمران خان نئے الیکشنوں کیلئے اپنی دونوں صوبائی حکومتیں ہی کیوں نہ قربان کر دیں کیونکہ حکومت کو اس بات کا مکمل طور پر ادراک اور اندیشہ ہے کہ وہ ان الیکشنوں میں بری طرح مار کھا جائیں گے۔

اور دوسرا سب سے اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر پنجاب اور کے پی کے میں تحریک انصاف الیکشن جیت جاتی ہے کہ آپ کو یہ بات مکمل طور پر ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ حکومت قومی اسمبلی کے الیکشن بھی مقررہ مدت میں نہیں کروائے گی اور الیکشن کو ہر صورت میں لیٹ کرنے کا سوچے گی۔ عمران خان کیخلاف موجودہ پی ڈی ایم اتحاد کی ہر کوشش خود ہی زمین بوس ہوتی چلی گئی۔

اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ پی ڈی ایم حکومت عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت کو مزید تباہ و برباد کرتی چلی جا رہی ہے، ہماری خارجہ پالیسی کی یہ صورتحال بن چکی ہے ہمارے وزیر خارجہ ہر ملک کا دورہ کر رہے ہیں لیکن دوست ممالک سمیت کوئی بھی ملک ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں، بین الاقوامی سرمایہ کار ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہمارا اپنا کاروباری طبقہ پریشان حال ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ لیول پلینگ فیلڈ تلاش کرنے کی بجائے عوام کو بھلائی کا سوچے کیونکہ اس حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے عوام عمران خان کے گن گا رہی ہے اب چاہے میرے عالیجاہ آئیں یا نہ آئیں ان سے پی ڈی ایم اتحاد کوئی کامیابی اور عمران خان کو کوئی ناکامی نہیں ملے گی، یہ چال بھی بیکار جا سکتی ہے۔

Check Also

Dil Torna Mana Hai?

By Javed Ayaz Khan