Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raza Ali Khan
  4. Iqtidar Aur Sirf Iqtidar

Iqtidar Aur Sirf Iqtidar

اقتدار اور صرف اقتدار

سند کی چوپان پر "ہیت" کا طلاطم خیز طوفان برپا ہے، ہر اک قلمرو اور بالادست کی دوڑ میں"محیط" میں داخل ہونا چاہ رہا ہے، عرصہ قبل کی حاکمیت کے حاکموں کا جمع غفیر منصب کی سیج پر بیٹھنے کے لیے بے تاب و بے قرار ہے، اقتدار کا جلوہ عجب رنگین مزاج ہے۔ آج کے دور ایام میں، ماضی کے حلیف اور مرتبہ پھر سے حلیف بن چکے ہیں، ماضی کی نسبت اس بار کیا انوکھا ہوگا یہ معلوم نہیں۔

بہرکیف اب پھر وہی رسم دہرانا چاہ رہے ہیں، انتخاب کا زمانہ بیت چکا ہے، اقتدار کی سند کس کی جھولی میں جاتی ہے یہ لمحہ بہ لمحہ سحر انگیز ہوتا جارہا ہے تھا ایک "ہو کا عالم" تھا، ارد گرد کے گلستانوں میں، مفاہمت کے کاریگر نے مفاہمت سے پھر اکھٹ کر دیا تھا، وہ تو پہلے بھی داد ہی اکھٹا کرتا رہا ہے اب انوکھا کچھ بھی نہیں بس وقت کے کاریگروں نے ایک اکھٹ کرکے رعایا کے مستقبل کا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔ اب مستقبل میں کیا کارنامہ سر انجام دیں گے اسکا اب خیال کرنا بھی ممنوع ہوگا۔

مجھے کیا سیاسی طور پر شعور رکھنے والے ہر ایک کو علم تھا کہ اس مرتبہ بھی سابقہ طرز حکمرانی کا اتحاد قائم کیا جائے گا، اقتدار کی مینڈ کس طرح پروان چڑھانی ہے ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا مسئلہ صرف اور صرف اقتدار کی رام لیلا کا ہے۔ اس مسند پر کس کو فائز ہونا ہے یہ بات اب حصہ داری تک پہنچ چکی ہے پہلے چودھری شجاعت کے گھر میں ہوئی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں جو تاثر دیا جا رہا ہے اس سے یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ اس سیاسی اتحاد میں شامل ہر جماعت عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرئے گی، جس کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں ہے۔

وہ مانگے تانگے سے حاکم وقت بننا چاہتے ہیں اور عوام پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں، مجھے سچ پوچھیں تو تعجب اس وقت ہوا جب محترم آصف علی زرداری صاحب اس تمام تر گفتگو میں شریک تھے، حالانکہ ان کے صاحبزادہ بلاول زرداری صاحب نے بھی اس دن شام کے پہر انکی پریس ٹاک نے پاکستان کی سیاست کو ہلا کر رکھا دیا۔ اس سے جو تاثر قائم ہوا وہ لکھنے کی ضرورت نہیں، اس کے بعد کے بیانات بھی حیرت انگیز تھے، ایک طرف بلاول حکومت میں شامل ہونا نہیں چاہتے تھے کابینہ میں حصہ داری بھی نہیں چاہتے لیکن اقتدار کی وہ کرسیاں جو آئینی نشستیں ہوتی ہیں۔ ان پر براجمان ہونا چاہتے ہیں۔

ان کے والد صدر پاکستان کا منصب ایک مرتبہ پھر اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ حکومت میں شامل ہونا نہیں چاہتے یہ منطق عجب نرالی ہے، یہی سب کچھ سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کس طرح اور کیسے کر لیتے ہیں ہم لوگ تو اتنی عقل نہیں رکھتے، حالانکہ عوام نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواران کو بڑی تعداد میں منتخب کیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت سازی کے لیے انکو راستہ دیتے عوامی مینڈیٹ کا احترام جمہوریت میں یہی تو ہوتا ہے کہ عوام کی خواہشات کے مطابق عمل کیا جائے لیکن یہاں جمہور کی منشاء کے بر خلاف یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ دو تہائی مینڈیٹ مشترکہ طور پر ان سیاسی قائدین کو دیا گیا ہے۔

جو حکومت بنا رہے ہیں اس سارے عمل میں تحریک انصاف کو مفاہمت کے لیے بلایا جا رہا ہے اور ان کو بھی اس بات کا علم ہے کہ وہ مفاہمت مفوہمت کے چکر میں پڑنے والی جماعت ہے ہی نہیں، اس وجہ سے بانی پی ٹی آئی کی سیاسی جماعت کو اس تمام تر صورتحال سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اب جس طرح کے حالات پاکستان میں بن چکے ہیں ان سے نبردآزما ہونا مشکل بنتا جا رہا ہے، چھوٹا بڑا ہر کوئی پاکستان کے مستقبل کے حوالہ سے فکر مند ہے، سیاسی طور دیکھا جائے تو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا سیاسی اتحاد ایک کمزور دھاگے جتنا ہے، ان دونوں سیاسی جماعتوں کے منشور ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

مسلم لیگ نون کی سیاسی سوچ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی سوچ میں زمین آسمان کا فرق واضح ہے، لیکن اس کے باوجود یہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا بھرپور طریقہ سے ساتھ دینگی کیونکہ ان دونوں کے درمیان آصف علی زرداری ہیں، جو اقتدار کے لیے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنانا آصف علی زرداری بخوبی جانتے ہیں، انکی سیاست میں کونسے مفادات ہیں وہ پاکستان کی عوام کو جاننے کی قطعاً ضرورت نہیں، مجھے تو صرف اس بات کی حیرانگی ہے کہ شہید بھٹو کے نواسے، بی بی شہید اور آصف علی زرداری کے فرزند بلاول بھٹوزرداری نے جو چیلنجز میاں صاحبان کو پیش کیے تھے انکا کیا کرنا ہے کیونکہ ان کی الیکشن مہم میں نوے فیصد ہدف میاں صاحبان تھے۔ جن کو یہ مناظرے کے کھلے عام چیلنج دے رہے تھے، جبکہ میرے عالی جاہ کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز صاحبہ بھی اپنے جلسوں میں بلاول کو ٹھیک ٹھاک طریقہ سے تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں۔

شائد آپ کو یاد ہو کہ الیکشن مہم کے دنوں میں کراچی میں بارش ہوئی تھی اس بارش کو لیکر شریف خاندان کے وہ افراد جو سیاست میں پیش پیش ہیں انہوں نے بلاول کو آڑے ہاتھوں لیا تھا، جس سے حالات اس قدر خوفناک ہو گے تھے کہ میرے جیسے کم عقل یہ سمجھ گیے تھے۔ اب کی بار یہ دونوں جماعتیں بالخصوص پیپلز پارٹی کسی بھی صورت نون لیگ کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائے گی، لیکن بیچ بچاؤ کروانے والوں نے ایک مرتبہ پھر ان دونوں کو ایک جگہ متحد کرکے ایک ایسا شراکت اقتدار کا معاہدہ کروا دیا جس میں ایک کم عقل کو بھی اچھنبے کی بات نہیں لگی۔

ہونا بھی یہی تھا کیونکہ اقتدار کی مسند پر بیٹھنا ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے اور پاکستان میں تو ویسے بھی موروثیت نے ایسے پاؤں گاڑھ رکھے ہیں جن کو اکھاڑنے کے لیے مزید کتنا وقت درکار ہے یہ ہم سے کسی کو بھی علم نہیں، اس خاندانی سیاست کی وجہ سے ہی تو آصف علی زرداری صدر پاکستان اور شریف خاندان کے شہباز شریف وزیراعظم کے منصب پر فائز ہو رہے ہیں، پاکستان کی عوام نے جو تماشہ الیکشن مہم کے دوران ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان دیکھا، اس سے تو اس عوام کے دلوں میں بانی پی ٹی آئی کی بات مہر ثبت کر چکی ہے کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں نورا کشتی کھیلتی ہیں اور ویسے بھی اگر آپ سوچ کر دیکھیں تو مجھے یہی لگتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اس وقت تک ایک دوسرے کے دست و بازو بنی رہیں گی جب تک عمران خان جیسا سخت گیر سیاسی مخالف موجود ہے۔

اس لیے ان دونوں سیاسی جماعتوں کی یہ مجبوری اور خواہش بھی ہے کہ یہ "کڑوا کڑوا تھو تھو اور میٹھا میٹھا ہپ ہپ" کرتی رہیں گی، ان کی سیاست کو محو و مرکز اس وقت صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنا ہے اور اسی لیے یہ ماضی میں جس طرح ایک دوسرے کے خلاف دست و گریبان رہی ہیں وہ صورتحال اب ناممکن ہے۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt