Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raza Ali Khan
  4. Imran Khan Ka Bayaniya Aur Makhloot Hukumat

Imran Khan Ka Bayaniya Aur Makhloot Hukumat

عمران خان کا بیانیہ اور مخلوط حکومت

ہر گزرتا لمحہ اعصاب شکن بنتا جا رہا ہے۔ تدبیر اور تعبیر میں فرق معلوم ہونا چاہیے۔ حالات غیر معمولی صورتحال کو "دعوت عام" دے رہے ہیں۔ روایات کا قتل عام "حاکموں " کو ہمیشہ "معاف" ہوتا ہے۔ وہ روایات کی "تدفین" کریں یا "چیتا" جلائیں کوئی پوچھنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ جھوٹی "قسمیں " کھائیں یا "وعدے" کریں وہ سب ان پر "واری" جاتے ہیں۔ ماضی قریب میں خوفناک صورتحال کی تعبیریں سنا رہے تھے۔

بلند و بانگ دعوے تھے کیا ہماری "خامی خیالی" تھی؟ حق پر تھے یا جھوٹ معلوم ہوتا ہے وہ محض ایک "افسانوی" یا "رومانوی" داستان تھی؟ ہر دن اپنی "الف لیلوی" داستان کی کہانی سنا کر ہمیں رام کرنے کی کوششوں میں تھے۔ کیا معلوم تھا یہ کھیل تو اقتدار کی "کرسی" کا شوق تھا۔ وقت تو اپنی رفتار سے چل رہا ہے۔ یہ کبھی "دھیمے" یا "تیز ی" کا شوقین نہیں رہا۔ یہ چلتا ہے بس چلتا رہتا ہے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ "اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار دی ہے" یہ حقیقت اب سچ معلوم ہو رہی ہے۔ اقتدار کی خاطر اقدار کا جنازہ اب باجماعت ادا کر رہے ہیں۔ گلے میں جو ڈول ڈال لیا ہے وہ تو اب ہر صورت بجانا پڑے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ اب الزام تراشیاں کی جائیں یہ کھیل اب شروع ہوا ہے تو اس کو انجام پر پہنچنا بھی اب انہی کے سر ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ حالات میں موجودہ حکومت کا حال ایسا ہو چکا ہے کہ "آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا" تو برا نہیں ہوگا۔ ان حالات میں پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے عمران خان کو ہٹانے کےلئے جو جواء کھیلا ہے وہ تمام تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کی رائے کے مطابق پی ڈی ایم کی تمام سیاسی قوتیں ہارتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ جس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ عمران خان کا سازش کا بیانیہ ہے۔

اس موجودہ سیاسی حالات میں یہ کہنا باعث حیرانگی ہے کہ پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے قائدین سیاسی لحاظ سے بڑے قد آور سیاسی قائدین میں شامل ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کو تحریک عدم کے ذریعے ہٹا کر وہ سیاسی غلطی کر دی ہے جو انہیں آئندہ الیکشن میں بظاہر ناکامی کی صورت میں چکانا پڑے گی۔

کیونکہ اس وقت عمران خان کا بیانیہ پاکستان کی عوام کے آگے بھرپور انداز میں بک رہا ہے اور لوگ اس بیانیہ کو قبول بھی کر رہے اور تسلیم بھی کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ جو میری نظر ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے خود ہی عمران خان کو وہ سپورٹ مہیا کی ہے جو شائد ان کی سیاسی زندگیوں کی بڑی غلطیاں ہیں عمران خان کے بیانیہ کو تقویت دینے میں سب سے اہم کردار موجودہ حکومت ہے بالخصوص مسلم لیگ نون کا ہے۔

مسلم لیگ ن عمران خان کے بیانیہ کو فروخت کرنے والی سب سے بڑی دکان ہے، عمران خان اس ڈونلڈ لو کے مراسلے کو اپنے خلاف ہونی والی سازش کے طور پر لیتے رہے ہیں بہت کم مواقع تھے کہ پاکستان کی عوام پہلے پہل اس مراسلے کو سچا تسلیم کرتی لیکن مسلم لیگ ن نے خود ہی اس مراسلے کے سچے ہونے کی جہاں گواہی دی وہیں اس مراسلے پر کمیشن بنانے کا اعلان بھی کر دیا، اس سے بڑھ کر وزیراعظم شہباز شریف نے اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر اس مراسلے میں امریکی دھمکی اور مداخلت کا خود منہ سے اقرار بھی کیا۔

اب جب ایسے صورتحال بن جائے تو یہ بات یقینی بنتی جارہی ہے کہ عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین لیڈر بن چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت پر پریشر بھی ڈال رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد الیکشن کا اعلان کرے اور عمران خان کا یہ مطالبہ بھی آئینی و قانونی طور پر جائز ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ اس وقت عمران خان کے تمام جلسوں میں پاکستان کے عوام بھرپور طریقہ سے شرکت کر رہے ہیں اور عوام کا ان کے جلسوں میں جوش و خروش بھی دیدنی ہے۔

اس تمام تر سیاسی صورتحال میں عمران خان پاور پولیٹکس کو بھرپور انداز میں آگے لےکر چل رہے ہیں۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ موجودہ حکومت عمران خان کے سیاسی دباؤ میں آ کر الیکشن کروانے پر تیار ہو جاتی ہے تو کیا موجودہ سیاسی حالات میں مسلم لیگ ن تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو ساتھ لےکر الیکشن جیت سکے گی؟ قطعاً ایسا نہیں ہو گا مسلم لیگ ن کو اس بات کا یقین ہو چکا ہے اور پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتیں بھی اس بات کو مان چکی ہیں، ہم نے عمران خان کو ہٹا کر ایک بڑا سیاسی بلنڈر کر دیا ہے۔

اب اگر موجودہ مخلوط حکومت قبل از وقت الیکشن نہیں کرواتی تو جس طرح کے معاشی حالات اس وقت ملک کو درپیش ہیں اس سے نکلنا بھی حکومت کےلئے بے حد مشکل ہو جائے گا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت شہباز حکومت کو کسی بھی دوست ملک کی طرف ریلیف پیکیج نہیں دیا گیا، ہماری ڈالرز کے ذخائر آئے روز کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ روپیہ مستحکم ہونے کی بجائے مزید گراوٹ کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔

سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کا لگایا ہوا سرمایہ گر رہا ہے اور سرمایہ کار سٹاک ایکسچینج سے اپنا پیسہ واپس نکال رہے ہیں جس سے ملکی معیشت کو بہت بڑے کرائسز کا سامنا ہے۔ اگر ان حالات کو کنٹرول کیا جاتا ہے تو مہنگائی کا ایک طوفان ایسی صورت میں سامنے آئےگا کہ پاکستان کی عوام عمران خان کو دعائیں دیتی ہوئی نظر آئے گی جس سے یہ بات تو یقینی ہے کہ عمران خان موجودہ سیاسی صورتحال سے بھی مزید مضبوط ہو جائیں گے۔

جس سے پی ڈی ایم کو وہ سیاسی نقصان ہو گا جس کا اس نے کبھی اندازہ بھی نہیں کیا ہو گا، اب سوال یہ بنتا جا رہا ہے کہ کیا موجودہ شہباز حکومت اس تمام تر صورتحال کو کنٹرول کر سکتی ہے؟ میرے ذاتی خیال میں حکومت کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے اور معتبر حلقے بھی اس بات کو اندرون خانہ مان چکے ہیں کہ عمران خان ان موجودہ سیاسی حالات میں مکمل طور پر حاوی ہو چکے ہیں اور وہ الیکشن میں کامیاب ہوتے ہوئے دکھائی بھی دے رہے ہیں۔

کیونکہ بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت اور تحریک انصاف کی لیڈر شپ نے جس طرح اپنے بیانیہ "غلامی نہیں آزادی" کو بیان کیا وہ واضح طور پر پاکستان کی عوام نے دل و جان سے قبول کیا ہے اور عوام ہمیشہ سے ہی اپنی خودداری اور آزادی کےلئے اپنی جان تک قربان کرنے کےلئے تیار رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو چکے ہیں۔

اب حکومت نے کسی نہ کسی طرح جہاں ایک طرف عوام کو ریلیف بھی مہیا کرنا اور ملکی معیشت کو بھی سہارا دینا ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو یہ بات یقین ہو جائے گی کہ عمران خان جس وقت بھی الیکشن ہوئے کامیاب ہو جائیں گے اور اگر موجودہ حکومت معیشت کو ٹھیک کرتی ہے تو وہ عوام کو ریلیف کسی بھی صورت نہیں دے سکے گی جس سے عوام کے اندر جو نفرت عمران خان حکومت کے حوالہ سے تھی وہ تبدیل ہو کر صرف ایک جماعت مسلم لیگ ن کی طرف چلی جائے گی۔

اور عوام جو بدعائیں عمران خان حکومت کو دے رہے تھے وہ مسلم لیگ ن کو دیں گے اور جس طرح کے الزامات عمران خان پر لگا رہے تھے وہ مسلم لیگ ن پر لگائیں۔ اس لیے یہ صورتحال مسلم لیگ ن کےلئے گلے کی ہڈی بن چکی ہے جس کو اب نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اگلا اور لوگ یہ بات بھی جانتے ہیں کہ یہی وہ اپوزیشن تھی جو یہ کہتی رہی ہے کہ ہم حکومت میں آکر ڈالر کا ریٹ کم کرینگے۔ مہنگائی کو 2018ء کی شرح پر لائیں گے۔

پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کرکے لوگوں کو ریلیف مہیا کرینگے اور بجلی کے نرخ بھی سابقہ ادوار جیسے کریں گے لیکن ایسا اس وقت نہیں ہو سکا اور یہ نظر بھی نہیں آ رہا ہے کہ یہ حکومت ایسا کوئی عوامی ریلیف پاکستان کی عوام کو مہیا کر سکے گی۔ آخر میں ایک بات کرتا چلوں وہ یہ کہ موجودہ سیاسی حالات میں سب سے بڑا نقصان مسلم لیگ ن کو ہو گا اور ہو بھی رہا ہے۔

مسلم لیگ ن نے جو وار عمران خان پر کرنا تھا وہ اس نے خود اپنے آپ پر کر دیا ہے اگر عمران خان کو محض ایک سال اور چند ماہ مزید برداشت کر لیا جاتا تو عمران خان کی مقبولیت میں یقینی طورپر کمی آ سکتی تھی وہ جماعت جو الیکشن میں مکمل طور پر ہارتی ہوئی نظر آرہی تھی اس کو مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کی بات مان کر وہ غلطی کر دی ہے جس کے نتائج مسلم لیگ نون کو بہت بڑے ثابت ہونگے۔

اور جہاں تک بات ہے پیپلز پارٹی کی تو پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ وہ کھیل کھیلا ہے جہاں ان کا سیاسی نقصان کہیں بھی ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ پیپلزپارٹی نے ان وزارتوں پر اکتفاء کیا ہے جن کا عوامی ریلیف سے دور دور تک تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔

اور یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس وقت حکومت میں ہونےکے باوجود بھی سیاسی مشکلات سے دور ہے اور یہ بات یقینی بن چکی ہے کہ عمران خان کا سیاسی بیانیہ اور مسلم لیگ ن کی الیکشنوں میں قربانی ایک سیاسی حقیقت کے طور پر آشکار ہو رہی ہے جس کو روکنے کی کوشش کی گئی تو سیاسی حالات جہاں گھمبیر ہونگے وہیں سیاسی مشکلات بھی تمام سیاسی جماعتوں کی بڑھ جائیں گی۔

اس لیے یہ وقت کا تقاضا بن چکا ہے کہ عمران خان کے مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے فوری اور جلد از جلد انتخابات کا مطالبہ تسلیم کر لیا جائے کیونکہ اس حالات میں جو بھی نقصان ہوگا وہ عمران خان کے مخالفین کا ہو گا جن میں منحرف اراکین سے لیکر حکومت کی تمام سیاسی جماعتیں بھی اس سیاسی ریلے میں اپنی سیاسی زندگی آئندہ پانچ سال کے لئے بہا کر لے جائیں گے۔

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal