Siasiiqdar Ke Zawal Ki Wajoohat
سیاسی اقدار کے زوال کی وجوہات

ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث بے یقینی کی صورتحال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں ملک کی معاشی حالت کا درست اندازہ اور سمت کا تعین کرنا عام آدمی کے لئے مشکل ہے۔ حکومت کی کارکردگی کا مطلب عوام کو ڈلیور کرنا ہوتا ہے۔ لیکن عام آدمی کی معاشی حالت اتنی پتلی ہو چکی ہے کہ دو وقت کی روٹی کا حصول اس کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ ملک میں روزگار کے مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے مہنگائی اور غربت کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باعث مقامی سرمایہ کار بھی ملک میں سرمایہ کاری نہیں کر رہا۔ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں صنعت اور زراعت کے شعبے کلیدی سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ملک کا کسان آج بد حال ہے۔ صنعت کا پہیہ جام ہے۔ ملک میں موجود سرکاری محکمہ جات کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ جس سے روزگار کے مواقع مزید محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ شرح غربت 46 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ملک کو آگے نہیں بڑھنے دے رہے۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے یہ صرف کہنے اور دل لھبانے کی حد تک درست ہے۔ تاریخ شاہد ہے جب بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام آیا ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ جس ملک میں رول آف لاء نہیں ہوتا وہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسا خود ساختہ نظام ہوتا ہے۔ یہ طے ہے جب تک ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت قائم نہیں ہوگی۔ تب تک ملک کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ملک میں سیاسی اقدار روبہ زوال ہے اور یہی وجہ ہے آج معیشت گراوٹ کا شکار ہے۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا تو معاشی بہتری کی امید رکھنا عبث ہے۔
سیاسی استحکام اور سیاسی اقدار کسی بھی معاشرے کی فکری بنیادوں، جمہوری اصولوں اور قومی ترقی کی سمت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جب ملک میں سیاسی استحکام ہو اور سیاسی اقدار مضبوط ہوتی ہیں تو ریاستیں ترقی کرتی ہیں۔ انصاف کا بول بالا ہوتا ہے اور عوام کو ان کے حقوق میسر آتے ہیں۔ پاکستان میں اس انحطاط کے متعدد اسباب ہیں۔ جنہیں سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا نہایت ضروری ہے۔ سیاسی اقدار کی زوال پذیری کا سب سے بڑا سبب کرپشن ہے۔
جب عوامی نمائندے قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو سیاسی نظام میں بدعنوانی کا زہر سرایت کر جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میرٹ کا قتل ہوتا ہے۔ ادارے کمزور ہو جاتے ہیں اور عوام کا سیاسی نظام سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ دوسرا جمہوریت میں قیادت کا تصور کارکردگی اور عوامی حمایت پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے خاندانی سیاست نے اس نظام کو کمزور کر دیا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں مخصوص خاندانوں کی جاگیر بن جاتی ہیں۔ تو نئی قیادت ابھرنے کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں اور سیاسی اقدار میں تنوع اور دیانتداری ناپید ہو جاتی ہے۔
جس معاشرے میں عوام اپنے سیاسی حقوق، ذمہ داریوں اور اختیارات سے ناواقف ہوں۔ تو وہ صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کر پاتے۔ ووٹ کا غلط استعمال جذباتی نعروں پر یقین اور غیر معیاری قیادت کا انتخاب سب سیاسی اقدار کو کمزور کرتے ہیں۔ جب سیاسی اقدار کا زوال ہوتا ہے تو ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہو جاتا ہے۔
اس وقت لوگ میڈیا کی باتوں پر کم یقین رکھتے ہیں۔ کیوں کہ جب سے سوشل میڈیا کی شروعات ہوئی ہیں تب سے کوئی بات راز نہیں رہی۔ سوشل میڈیا کی دو دھاری تلوار کی کاٹ اتنی سخت ہے کہ سچ اور جھوٹ کا نتارہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ میڈیا جو عوامی رائے کو تشکیل دیتا ہے اگر جانبدار ہو جائے یا مخصوص سیاسی مفادات کی آلہ کار بن جائے۔ تو وہ سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیز کو ختم کر دیتا ہے۔ یہ صورت حال سیاسی ماحول کو گمراہ کن اور غیر شفاف بنا دیتی ہے۔ ایسے حالات میں میڈیا کا کردار سنجیدہ اور ذمہ دارانہ ہونا چاہیئے۔ اگر میڈیا اپنی ذمہ داری امانت داری کے ساتھ نبھائے تو مفادات کی سیاست کے آگے بھی روک لگ سکتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سیاسی شعور کی بنیاد ایک مؤثر تعلیمی نظام سے رکھی جاتی ہے۔ جب تعلیم محض رٹہ بازی اور ڈگریوں تک محدود ہو جائے۔ تو افراد میں تجزیاتی صلاحیت، اخلاقی سوچ اور قومی ذمہ داری کا شعور نہیں آ پاتا، جس سے سیاسی اقدار متاثر ہوتی ہیں۔
جمہوری اقدار کی حفاظت کرنے والے ادارے جب سیاسی مداخلت کا شکار ہو جائیں تو وہ غیر جانب دار فیصلے کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ اس سے انصاف، شفافیت اور قانون کی حکمرانی ختم ہو جاتی ہے، جو کہ سیاسی اقدار کے بنیادی ستون ہیں۔ سیاسی اقدار کا زوال کسی ایک عنصر کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ کئی عوامل کی مشترکہ پیداوار ہے۔ اس کا اثر صرف حکومتی نظام پر نہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی، قومی ترقی اور عوام کے معیارِ زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا جائے، اداروں کو خود مختار اور شفاف بنایا جائے، تعلیم کو معیاری بنایا جائے اور قیادت میں دیانت، شفافیت اور خدمت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ اگر ہم آج اصلاح کے اقدامات نہیں کریں گے تو یہ طے ہےکل کا مورخ ہمیں صرف ایک ناکام قوم کے طور پر یاد رکھے گا۔

