Hafizabad Rape Case, Dpo Atif Nazir Shabash
حافظ آباد ریپ کیس، ڈی پی او عاطف نذیر شاباش

رواں سال 2025ء میں ضلع حافظ آباد میں ریپ کیسز کی تعداد کے بارے سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم ماضی کے اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حافظ آباد میں ریپ کے واقعات کی شرح میں اضافہ ہوا۔
نومبر 2024ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حافظ آباد میں 2024ء کے پہلے چار ماہ میں 19 خواتین کے اغوا کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار اغوا کے ہیں، لیکن یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ضلع میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند دن قبل حافظ آباد کے نواحی گاؤں مانگٹ اونچا میں چند بے رحم درندہ نما اوباش نوجوان ملزمان نے ایک خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس سے بھی شرمناک پہلو یہ ان سفاک درندہ نما ملزمان نے اجتماعی زیادتی کے بعد اس خاتون اور اس کے شوہر کو نزدیکی قبرستان میں لے جا کر برہنہ کیا اور زبردستی مباشرت پر مجبور کیا اور اس شرمناک فعل کی ملزمان نے باقاعدہ وڈیو ریکارڈ کی۔
اس کربناک وقوعہ نے معاشرے کے ہر ذی شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ واضح رہے کہ تین جون کو حافظ آباد کے تھانہ کسوکی میں درج ہونے والے گینگ ریپ کے مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق خاتون کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد ملزمان نے دونوں میاں بیوی سے مبینہ طور پر اسلحہ کے زور پر جنسی عمل بھی کروایا اور اس کی ویڈیو ریکارڈ کی گئی اور ملزمان موقع سےفرار ہو گئے۔ مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس واقعہ کو ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا۔ لیکن گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کے شوہر کے جانب سے مقدمے کا اندراج اس وقت کروایا گیا۔ جب ملزمان کی جانب سے مبینہ گینگ ریپ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر آپ لوڈ کی گئی۔ ایف آئی آر میں کیا کہا گیا؟
درج ایف آئی ار میں مدعی مقدمہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ 25 اپریل کو اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنی بہن کو ملنے کے لیے موٹر سائیکل پرنوشہرہ ورکاں گئے۔ جب گھر واپسی پر شام ہوگئی تھی اور راستے میں ان کی بیوی ایک شوگر مل کے پاس رفع حاجت کے لیے موٹرسائیکل سے اتریں۔ ایف آئی ار کے مطابق اسی اثنا میں ایک شخص نے مدعی مقدمہ سے شام کے وقت اس جگہ پر رکنے کی وجہ پوچھی۔ جس پر انھوں نے بتایا کہ اس کی بیوی رفع حاجت کے لیے گئی ہے۔ تو اسی وجہ سے وہ یہاں پر رکے ہوئے ہیں۔ اسی دوران ملزم کا ایک اور ساتھی بھی وہاں پر آگیا اور اس کے کچھ دیر بعد ہی ملزمان کا تیسرا ساتھی بھی وہاں پہنچ گیا۔
اس واقعے کی ایف آئی آر میں مدعی مقدمہ نے دعویٰ کیا کہ ملزمان ان دونوں میاں بیوی کو کچھ فاصلے پر واقع قبرستان کے پاس لے گئے۔ جہاں پر ان مسلح ملزمان نے دونوں میاں بیوی کو برہنہ کر دیا۔ مدعی مقدمہ نے بتایا کہ ملزمان نے (مدعی مقدمہ) کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی بیوی کو مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔ جبکہ مدعی مقدمہ ایسا نہ کرنے کے حوالے سے ملزمان کی منتیں بھی کرتے رہے۔ لیکن ملزمان باز نہ آئے اور ان کی بیوی کو ریپ کا نشانہ بناتے رہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان جب اس خاتون کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنا رہے تھے۔ تو ان کا ایک ساتھی اس واقعے کی ویڈیو بھی بناتا رہا۔
ایف آئی آر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ملزمان نے ریپ کے بعد شوہر کو اسلحہ کے زور پر اپنی بیوی کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی عمل کرنے کے لیے مجبور کیا۔ مدعی مقدمہ کا دعویٰ ہے کہ ملزمان کے کہنے پر انھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ جنسی عمل کیا۔ جس کی ملزمان نے ویڈیو بھی بنائی۔ مدعی مقدمہ نے پولیس کو بتایا کہ ملزمان نے فرار ہوتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے اپنی بیوی کا میڈیکل چیک آپ کروانے کی کوشش کی یا اس واقعہ کے بارے میں پولیس کو بتایا۔ تو وہ اس گینگ ریپ اور میاں بیوی کے جنسی عمل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آپ لوڈ کردیں گے۔
مدعی مقدمہ نے پولیس کو بتایا کہ اپنی عزت بچانے کے لیے انھوں نے اس واقعہ کی رپورٹ فوری طور پر پولیس میں درج نہیں کروائی تھی۔ لیکن جب اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آپ لوڈ کر دی گئی۔ تو پھر انھوں نے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے متعلقہ تھانے میں درخواست دی۔ یہ مدعی مقدمہ نے ایف ائی آر میں مئوقف اختیار کیا۔ اس دلدوز وقوعہ سے جڑا جو شرمناک پہلو سامنے آیا۔ وہ یہ جب وقوعہ ہوا تو علاقہ کے نزدیکی پولیس چوکی کے سابق انچارج کاشف وڑائچ نے وقوعہ میں ملوث ایک ملزم کو گرفتار کیا۔ لیکن اس وقوعہ کے گرفتار ملزم کو رہا کروانے اور وقوعہ کو دبانے کے لئے محکمہ پولیس کے ہی ایک سب انسپکٹر نے پوری سہولت کاری کا کلیدی کردار ادا کیا اور گرفتار ملزم کو نہ صرف رہا کروایا بلکہ معاملہ کو بھی سابق چوکی انچارج نے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے لے کر معاملہ دبا دیا۔
ذرائع کے مطابق وقوعہ میں شامل ملزم کی رہائی کی ڈیل میں اور بھی ایسے قبیح کردار شامل ہیں۔ جنہوں نے اجتماعی عصمت دری کے اس کے وقوعہ کو دفن کرنے میں گھناؤنا کردار ادا کیا۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایسے شرمناک کردار ہیں جو پورے معاشرے کے مجرم ہیں۔ اگر اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آپ لوڈ نہ ہوتی۔ تو یہ وقوعہ بھی روایتی پولیس کلچر کی بھینٹ چڑھ گیا ہوتا۔ ڈی پی او حافظ آباد عاطف نذیر ایک پروفیشنل اور نڈر آفیسر ہیں۔ انہوں نے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے۔ سابق انچارج چوکی اور اس ملی بھگت میں ملوث پولیس افسر پر مقدمہ درج کرکے حوالات میں بند کیا ہے۔ اس سے ڈی پی او عاطف نذیر نے جہاں محکمہ پولیس کا مورال بلند کیا یہ۔ وہیں عوامی حلقوں میں ان کے قابل ستائش اقدام کو بھی سراہا گیا۔
ڈی پی او عاطف نذیر کو چاہیئے کہ سابق چوکی انچارج پر قائم مقدمہ کی شفاف انکوائری کروائی جائے۔ تاکہ اس میں ملوث گھناؤنے کرداروں کو عوام شناخت کر سکے۔ ریپ ایک گھناؤنا جرم ہے۔ یہ جرم ایک فرد کو متاثر نہیں کرتا۔ بلکہ پورے معاشرے کو اذیت اور اضطراب میں مبتلا کرتا ہے۔ اس وقوعہ کی جب ملزمان نے سوشل میڈیا پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو وائرل کی۔ تو یہ ملزمان کی جانب سے جرم کا کھلا اعتراف بلکہ ایک اور سنگین جرم کا ارتکاب تھا۔ پورے ضلع کے لوگوں پر سوگ کی کیفیت طاری تھی۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی نے ماحول کو سوگوار بنا دیا۔ پورے ضلع سمیت جہاں جہاں اس کربناک وقوعہ کی خبر پہنچی۔ تو ہر ذی شعور شہری منتظر تھا کہ مجرمان کب اپنے منتطقی انجام کو پہنچیں گے۔ یہ ایسی کربناک اضطرابی کیفیت تھی۔ لوگ فوری فیصلے کے منتظر تھے۔
ڈی پی او حافظ آباد عاطف نذیر نے وزیراعلٰی پنجاب اور آئی جی پنجاب کی ہدایت پر ملزمان کی جلد گرفتاری کے لئے پولیس ٹیمیں تشکیل دیں۔ سی سی ڈی(کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ) اور پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے ٹاسک کو احسن انداز میں نبھایا اور تین ملزمان کو مبینہ پولیس مقابلوں میں ہلاک کر دیا گیا۔ محکمہ پولیس کی جانب سے ملزمان کے خلاف کوئیک رسپانس پر محکمہ پولیس کو عوامی حلقوں میں کافی پذیرائی ملی ہے۔ ڈی پی او حافظ آباد ایک کہنہ مشق پولیس آفیسر ہیں۔ ان کی حافظ آباد میں تعیناتی نے جہاں محکمہ پولیس کی درست سمت کا تعین کیا ہے۔ وہیں پولیس کو عوام دوست بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
اس سانحہ کے بعد جس طرح ملزمان کا محکمہ پولیس نے تعاقب کیا یہ ایک پولیس فورس کا بے مثل کردار ہے۔ یہ ایک وقوعہ نہیں بلکہ ایک سانحہ ہے اور اس سانحہ پر جس انداز میں سیاست، صحافت اور سماج نے یک زبان ہو کر انصاف کے لئے آواز بلند کی۔ اس سے اخذ کرنا دشوار نہیں کہ حافظ آباد کی تاریخ میں ایسا دلخراش سانحہ کبھی پیش نہیں آیا۔ حافظ آباد سمیت پورے ملک کو اس سانحہ نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ درندہ صفت ملزمان کے خلاف سخت اور فوری قانونی کارروائی نے پورے معاشرے کے زخم پر مرہم رکھا۔
میڈیا کا مثبت کردار، سیاسی قائدین کی سنجیدگی اور عوام کی جانب سے متاثرین کے حق میں اٹھنے والی بلند آہنگ آواز نے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ کیوں کہ اس سانحہ کے بعد غریب متاثرہ فیملی کے لئے طبی، قانونی اور نفسیاتی مدد وسائل کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ ہمارا عدالتی نظام سست روی، ناقص تفتیش اور گواہوں کا ڈر بہت سے کیسز کو انجام تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ کئی ممالک میں ریپ ایک ناقابل ضمانت جرم ہے۔ لیکن پاکستان جیسے پس ماندہ ملک میں ہمارا عدالتی نظام انتہائی سست اور انصاف کی عدم دستیابی کا مظہر ہے۔
ریپ کے شکار افراد کو کئی طرح کے جسمانی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن معاشروں میں جنسی تعلیم یا اخلاقی تربیت کا فقدان ہو۔ وہاں ایسے جرائم کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر متاثرہ خواتین اپنی اور اہل خانہ کو بدنامی سے بچانے کے لئے خاموش ہو جاتی ہیں۔ حافظ آباد کے گاؤں اونچا مانگٹ میں پیش آنے والا سانحہ میں متاثرہ فیملی کو بھی ملزمان نے ویڈیو ریکارڈ کرکے بلیک میلنک کی دھمکیاں دے کر خاموش کروا دیا تھا۔ لیکن اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے اللہ تعالٰی ظالم کی دراز رسی کو کھینچ کر اس کے گلے کا پھندا بنا دیتا ہے۔ ایسے واقعات سبق بھی ہوتے ہیں اور انسان کو عبرت کا رزق بننے سے بھی روکتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ اخلاقی زوال کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ جس کے باعث ایسے واقعات ہماری اخلاقیات کو تہہ در تہہ دفن کرتے جا رہے ہیں۔ معاشرتی بے راہ روی، فحاشی، عدم برداشت اور عورت کو کم تر سمجھنا ایسے جرائم کے فروغ میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ریپ ایک ایسا جرم ہے جو اکثر خاموشی کی چادر اوڑھے ہوتا ہے کیوں کہ متاثرہ فرد کو معاشرتی تضحیک بدنامی یا قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں تو دھرتی پر آئے روز سفاکیت اور درندگی کے ایسے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔ جو دل دہلاتے ہیں۔ لیکن ضلع حافظ آباد کے تھانہ پولیس کسوکی کی حدود میں شادی شدہ خاتون کے ساتھ عصمت دری کے اس لرزہ خیز شرمناک واقعہ نے پورے معاشرے کو اضطراب کا شکار کر دیا۔
اس دلخراش واقعہ پر ہر ذی شعور افسردہ ہے۔ یہ سوچ کر کلیجہ حلق کو آتا ہے کہ ایسے دردناک خوفناک، سفاک واقعات کا بوجھ دھرتی کب تک برداشت کر پائے گی۔ ظالم کی رسی کب تک دراز رہے گی اور مظلوم کی آہیں کب تک فلک کا سینہ شق کریں گی۔ کہتے ہیں جس معاشرے سے عدل اٹھ جائے۔ وہ معاشرہ وحشت و درندگی کی آماجگاہ گاہ بن جاتا ہے۔ ایسے ایسے ہائی پروفائل مقدمات ہیں جن کے ملزمان پیسے اور اثرورسوخ کی چھتری تلے آزاد گھوم رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں گو اس واقعہ میں ملوث ملزمان ماورائے عدالت جہنم واصل ہوئے۔ لیکن معاشرے میں ان ملزمان کی ہلاکت پر اطمینان کا تاثر ابھرا ہے۔ ڈی پی او حافظ آباد نے بروقت کارروائی کرکے معاشرے کو تحفظ کا احساس دلایا ہے۔ ایسے معاشرتی ناسور کسی طور بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
جو واقعہ اس خاندان کے ساتھ پیش آیا ہے۔ وہی جان سکتے ہیں کہ وہ کس اذیت اور کرب سے گزرے ہیں۔
اس گھناؤنے واقعے کے زخم دونوں میاں بیوی کے دل پر تازہ رہیں گے۔ آپ انصاف کے مکمل نظام کو پرکھ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ اگر ڈی پی او حافظ آباد ان ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرتے۔ تو کیا اس سانحہ کے ملزمان اپنے انجام کو پہنچ سکتے تھے۔ یہ ایسا دلدوز سوال ہے جو حکمرانوں اور اس نظام انصاف کے در پر دستک دے رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایسے ٹھوس قوانین بنائیں جائیں کم از کم ریپ کے مجرمان کو ایک مقررہ وقت کے اندر پھانسی دی جا سکے۔ جونہی ریپ کا ملزم گرفتار ہو ماڈل کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے اور تین سے چار ماہ کے دوران ملزم کو پھانسی کی سزا سنائی جائے۔ صرف دو سے تین سال ہم یہ کام کر لیں۔ تو معاشرہ بڑی حد تک ایسے درندہ صفت مجرمان سے پاک ہو جائے گا۔ کیوں کہ مہذب معاشرے کی یہی پہچان ہوتی ہے۔ جہاں ہر ماں بہن، بیٹی خود کو گھر کے باہر اور گھر کے اندر محفوظ تصور کرے۔
راقم جب یہ سطور سپرد قرطاس کر رہا ہے۔ مانگٹ اونچا واقعہ کا مرکزی ملزم اکرام مانگٹ تاحال گرفتار نہیں ہوا۔ اگر یہ ملزم گرفتار نہ ہوا تو محکمہ پولیس پر بہت سے سوالات اٹھ جائیں گے اور محکمہ پولیس کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ مجھ سمیت ضلع کے تمام باسی اس امید کے ساتھ جڑے ہیں۔ جہاں تین ملزمان اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ محکمہ پولیس اس آخری سفاک کردار کو بھی جلد گرفتار کر لے گا۔ بہر حال ڈی پی او حافظ آباد عاطف نذیر شاباش!

