Aabi Jarhiyat Ki Bharti Dhamki, Dams Ki Tameer Naguzeer
آبی جارحیت کی بھارتی دھمکی، ڈیمز کی تعمیر ناگزیر

تھر، چولستان اور بلوچستان کی آنکھیں پانی کی قلت کے باعث پہلے ہی نم ناک ہیں۔ پانی تو زندگی کی علامت ہے۔ انسان اپنی بقاء کے لئے سب کچھ لٹا کر بھی جنگ لڑتا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دینا ایک کھلی جنگ کے مترادف ہے اور اس دھمکی پر پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے آبی جارحیت کا ارتکاب کرنے کی بھارتی دھمکی پر دو ٹوک جواب دیا گیا۔ ترجمان پاک فوج نے بھارت پر واضح کر دیا کہ امید کرتے ہیں ہیں ایسا وقت نہیں آئے گا۔ اگر ایسا وقت آیا تو دنیا ہمارے اقدامات دیکھے گی اور سالوں، دہائیوں تک اس کے نتائج محسوس کیے جائیں گے۔
بھارت پاکستان کا پانی روک کر 24 کروڑ عوام کو ریت کے ڈھیر پر کھڑا کرکے قحط سے دوچار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک بھارت کی عملی سازشوں کے باوجود حکمران خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے۔ موجودہ صورت حال کو سامنے رکھیں تو آبی ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں۔ 2025ء میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہو جائے گی اور آج پانی کی قلت کا پاکستان کو سامنا ہے۔
پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کے لئے 155 سے164 چھوٹے بڑے ڈیم ہیں۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو چین میں 87,00 بھارت میں 4,300 اور دنیا بھر میں مجموعی طور پر 57,000 سے زائد ڈیمز موجود ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں ڈیمز کی تعداد عالمی سطح کے مقابلے میں کم ہے۔ جو پانی کی کمی اور سیلاب جیسے مسائل کا سبب ہے۔
پہلگام حملے کے بعد بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی نے پاکستان میں آبی سلامتی کے خدشات بڑھا دیے ہیں۔ ان دھمکیوں کے ردعمل میں چین نے مہمند ڈیم کی تعمیراتی سرگرمیوں کو تیز کر دیا ہے اور اس منصوبے کو تزویراتی اہمیت دے دی ہے پاکستان کے حکمرانوں کی ترجیحات سے محسوس ہوتا ہے۔ جیسے سیاسی جماعتوں کے منشور میں یہ بات سرے سے ہی موجود نہیں کہ آبی ذخائر کے لئے ڈیمز تعمیر کیے جائیں۔
چالاک اور مکار دشمن کی خباثت کا علم ہونے کے باوجود حفاظتی عملی اقدامات نہ اٹھانا بھی خود کو آگ میں جھونکنے کے مترادف ہے۔ بھارت عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پہلے ہی سندھ طاس معاہدہ معطل کر چکا ہے اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد باقاعدہ دشمن آبی جنگ کا آغاز کر چکا ہے۔
یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ لیکن المیہ ہے ہمارے سیاسی جماعتوں کے قائدین اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لئے۔ ایک ٹیبل پر کیوں نہیں بیٹھتے تاکہ اس سلگتے مسئلہ کا مستقل حل ہو سکے۔ میڈیا ہاؤسز اور دانشور طبقہ بھی چپ سادھے بیٹھا ہے۔ پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو پاکستان میں ڈیمز کی تعمیر کو متنازعہ بنانے کی باقاعدہ مہم کا حصہ ہے۔ اس سے یہ اخذ کرنا دشوار نہیں ہے کہ بھارت اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے اس طبقہ کو اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے نواز رہا ہے۔ تاکہ پاکستان کی زراعت تباہ اور معیشت کا پہیہ جام ہو کر رہ جائے۔
پاکستان کے سیاستدان طبقہ نے عوام کے ذہنوں کو اس حد تک اپنا اسیر بنا لیا کہ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تک سلب کر لی۔ پاکستان میں موجود سیاسی خاندانوں نے کبھی اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دی۔ جس کی وجہ سے آج پاکستان کو پانی کی قلت کے بحران کا سامنا ہے۔ سنجیدگی کے ساتھ جنگی بنیادوں پر عمل نہ کیا۔ تو پھر یہ دھرتی پانی کی عدم دستیابی پر اناج پیدا کرنا بند کر دے گی۔ پاکستان میں جو قحط سالی جنم لے گی۔ وہ بہت دردناک ہوگی۔
پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ سفارتی سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ بھارت کو ڈیم بنانے اور پاکستان کا پانی روکنے سے باز رکھا جائے۔ پاکستان میں جتنا پیسہ نام نہاد اسکیموں پر خرچ کیا جاتا ہے اگر اس کا ایک چوتھائی حصہ ڈیمز کی تعمیر پر خرچ کیا جائے۔ تو پاکستان میں زراعت کو فروغ ملے گا۔ پانی کی کمی دور ہوگی۔ توانائی بحران کا خاتمہ ہوگا۔ صنعت کا پہیہ چلے گا۔ برآمدات میں اضافہ ہوگا اور ملک ترقی کرے گا۔
بھارت پاکستان کو اس فائدے سے روکنے کے لئے آبی دہشتگردی پر اتر آیا ہے۔ تھر، چولستان اور بلوچستان میں ہی نہیں اب پانی کی ممکنہ عدم دستیابی کا مسئلہ 24 کروڑ عوام کے سر پر تلوار بن کر لٹک چکا ہے اور زیر زمیں پانی کی سطح گر جانے سے قلت آب کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ اگر ڈیمز اور ری چارجنگ پوائنٹس نہ بنائے گئے۔ تو پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بن جائے گا۔
بلوچستان میں اس وقت جو پانی استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ آئندہ آنے والی نسل کے حصہ کاپانی ہے۔ منگلا ڈیم اکتوبر 2017ء سے خالی پڑا ہے اور تربیلا ڈیم بارش کے رحم و کرم پر ہے۔ بھارت نے ستلج بیاس اور راوی کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے چولستان کی تیس لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بنجر ہو چکی ہے۔
موجودہ حالات میں ہم ڈیمز تعمیر نہ کرکے ایسی صورتحال کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں۔ جہاں انسانی حیات بھوک اور پیاس کے ہاتھوں منوں مٹی تلے دفن ہو جائے گی۔ یا پھر ایٹمی جنگ میں جان گنوا دے گی۔ اگر ہم نے ڈیم تعمیر کرنے کے سلسلے میں غفلت و لا پرواہی برتی۔ تو آنے والے عشرے بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ دریاؤں کی زندگی قائم رکھنے کے لئے ہمیں بھارت کی آبی دہشتگردی کے آگے بند باندھنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ریت کے ڈھیر پر کھڑے ہونے سے بہتر ہے۔ پاکستان کے حکمران اور موجود سیاسی جماعتیں ذہنی اور قلبی اعتماد کے ساتھ ڈیمز کی تعمیر کے ایک میز پر آئیں۔ انسانی حقوق کی بحالی اور آبی ذخائر کی تعمیر کو یقینی بنانے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خدا نخواستہ اگر دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بھی ناکامی کے باب میں بند ہو کر رہ گیا۔ تو پھر جنوبی ایشیاء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی ملکیت اور تقسیم کا تنازع بھی خطرناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ جو حکمران طبقہ سمیت ملک میں بسنے والے تمام طبقات کے لئے لمحہ فکریہ اور غور و فکر کا متقاضی ہے۔

