Zindagi Ki Talash
زندگی کی تلاش
ایک مدت سے یہ سوال پریشان کرتا چلا آ رہا ہے کہ زندگی کیا ہے؟ اس کا جواب ہر فرد اپنے مشاہدات و تجربات کے مطابق بیان کرسکتا ہے لیکن اس جواب میں حقیقت کے عنصر کو تلاش کرنا ہے کسی جوئے شیر لانے کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔ موجودہ دور کا انسان کئی طبقات میں تقسیم ہے۔ کوئی اپر کلاس سے ہے، تو کوئی مڈل کلاس سے اور آخر میں ہے لوئر کلاس لیکن ہمارا موضوع ہے زندگی کی تلاش چاہے جس طبقہ میں ہمیں زندگی مل جائے وہی قابلِ ستائش ہے۔
اپر کلاس میں اگر زندگی کو تلاش کیا جائے تو اس اپر کلاس میں آسائش بھرا ماحول تو موجود ہے۔ جس میں نوکر، گاڑی، بینک بیلنس و دیگر اشیاء لیکن زندگی موجود نہیں۔ اب مڈل کلاس میں دیکھیں تو ضروریات موجود ہیں روٹی، کپڑا اور مکان یہ تینوں چیزیں موجود ہیں لیکن زندگی تو یہاں بھی خواہشات پر قربان ہورہی ہے۔ لوئر کلاس جہاں روٹی، کپڑا اور مکان تو موجود ہیں لیکن اس میں تسلسل کی شاید کمی ہے کیونکہ رزق اللہ تعالیٰ نے دینا ہے اور لوئر کلاس کثرت کے ساتھ ہر جگہ ہر ملک میں موجود ہے اور کسی نہ کسی حالت میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا رہی ہے لیکن یہاں غربت ہے زندگی نہیں۔
جب زندگی ہمیں انسانوں میں نہیں ملی تو ہم نے دیگر مظاہر فطرت میں اس کی تلاش شروع کردی۔ پھولوں میں تلاش کی تو خزاں نظر آئی۔ جانوروں میں تلاش کی تو درندوں کا خوف اور خوراک کی تلاش نظر آئی۔ پھولوں اور جانوروں میں ہمیں زندگی آخر کر مل ہی گئی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان بھی زندہ رہنے کے لیے جد و جہد کر رہا اور نباتات و حیوانات بھی۔ تو پھر فرق کہاں ہے؟
جی فرق ہے زندگی کی تعریف میں۔ زندگی کی تعریف یہ ہے کہ موت کا انتظار کیا جائے۔ زندگی کی منزل موت ہے۔ زندگی ہمیشہ رہنے کا نام نہیں ہے۔ جبکہ انسان نے ہر وہ کام کیا جو اس بات کو تقویت دے رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی میں یہی خواہش رکھتا ہے کہ ایک بار زندگی کو جنت کی طرح بنا لیا جائے۔ اس کے لیے وہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔ کئی طرح کے تجربات کرتا ہے۔ کئی سالوں پر محیط ریسرچ کرتا ہے لیکن آج تک زندگی کو کہیں بھی تلاش نہیں کرسکا۔
قاری کے ذہن میں یہ خیالات جنم لے رہے ہوں گے کہ آج کالم نگار صاحب جمعہ کا خطبہ سن کے آئے ہیں تو شاید موت یاد آگئی ہو۔ بھئی زندگی نہیں گزرتی اگر پیسہ نہ ہو تو۔ معزز قاری آپ درست ہیں کیونکہ ہم اس تحریر کے بعد دوبارہ اسی معاشرے کا حصہ بن جائیں گے جہاں ایک مسلسل دوڑ ہے۔
اگر انسان غور کرے تو اس وقت ایک انسان جو دوسرے انسان کو مارنے کے لیے ہتھیار استعمال کر رہا ہے وہ ہے انسانی نفسیات۔ ہمیں معلوم ہے کہ غصہ کرنے سے مسائل جنم لیتے ہیں لیکن اچھے خاصے عالم فاضل کو بھی غصہ آتا ہے اور وہ بھی اس انسانی نفسیات کا شکار ہوتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟
اس کا حل ہے محبت۔ زندگی کی تلاش اگر چاہتے ہیں تو محبت کرلیں۔ مگر کونسی محبت؟ جانو مانو والی نہیں بھائی، آنلائن والی بھی نہیں پھر کونسی ماں باپ، بہن، بھائی والی محبت کی بات کر رہے ہیں؟ نہیں جی وہ بھی نہیں۔ اچھا عشق حقیقی کی بات اب سمجھے، نہیں بھائی وہ بھی نہیں۔ محبت کریں اپنے آپ سے اور اپنی موت سے۔ ہمیشہ اپنے محبوب کی طرح ہر وقت اس موت کو یاد رکھیں۔ جب اس محبوب کی یاد میں رہیں گے تو کسی دفتر میں رشوت لیتے اور دیتے وقت ہاتھ ضرور کانپیں گے، کسی غیر محرم کو دیکھنے پر آنکھ جھک کر نم ضرور ہوگی، رات کے وقت ننید نہیں آئے گی کیونکہ سر پر زمہ داریوں کا بوجھ سونے نہیں دے گا۔
زندگی کی تلاش میں اگر آپ کو موت سے محبت ہوگئی تو آپ خود کو روک سکتے ہو لیکن اس کے لیے حلال راستوں کو کھولنا بھی ضروری ہے۔ فتنے ہمیشہ تین چیزوں سے ہی جنم لیتے ہیں زر، زمین اور زن۔ زر یعنی دولت کی مساوی تقسیم کریں۔ زمین ہر فرد کو اس کے حقوق دیں۔ زن نکاح کو عام کریں۔ ان تین فتنوں کو کم کریں اور موت سے محبت کرلیں۔ زندگی آپ کے اشاروں پر رقص کرتی پھرے گی۔ لیکن یارو یہ تخیلات کی دنیا ہے۔ ذہن سے کاغذ تک اتر سکتی ہے مگر کاغذ سے معاشرے میں موجود لوگوں تک پہنچنے میں اور اپنی ذات پر نافذ کرنے میں نرگس کے پھول جیسا انتظار لازم ہے لیکن ایک کوشش تو کی جاسکتی ہے۔ شاید جو بات میرے دل میں نہیں اتر سکی کیونکہ یہ بہت میلا ہے، کسی صاف دل میں اتر گئی تو جو کل قیامت کے دن اللہ کی رحمت کا سایہ بن سکتی ہے۔