Qabool Karna Seekhen
قبول کرنا سیکھیں
گھر کے اندر سے کھلکھلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ گھر کے باہر تقریباً درجن بھر گاڑیاں موجود تھیں۔ گھر کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ کی طرف دو کمرے موجود تھے۔ پہلے کمرے کو چھوڑ کر دوسرے کمرے میں گانوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ یقیناً یہ ایک شادی کا لمحہ تھا۔ آج بڑے بھائی کا نکاح تھا۔ جب نکاح کی تقریب شروع ہوئی تو میرے کان میں یہ الفاظ گونجے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔ میرے ذہن کے اندر یہ الفاظ نقش سے ہو گئے۔
آج 2023ء میں یہ لفظ "قبول" پھر اپنی شدت سے گونج اٹھا ہے۔ قبول کرنا ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان خود کو مخصوص کر لیتا ہے یہاں لفظ مخصوص ہے آپ اس کو محدود کے ساتھ منصوب مت کیجئے گا۔ جب نکاح کے عمل میں مسلمان مومن یہ کہتا ہے کہ ہاں مجھے قبول ہے تو اس کا مطلب صرف ایک عورت کو قبول کرنا نہیں ہوتا اسی طرح جب ایک عورت کہتی ہے کہ ہاں قبول ہے تو اس کا بھی مطلب صرف مرد کو قبول کرنا نہیں ہے۔ اس وقت دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی ہر اچھی بری عادت بھی قبول کرتے ہیں، ہر خامی و خوبی بھی قبول کرتے ہیں، ایک دوسرے کے معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی حالات کو بھی قبول کرتے ہیں۔ کیونکہ اچھی ازدواجی زندگی کے لیے ان تمام باتوں کو قبول کرنا نہایت ضروری ہے۔
لیکن معاشرتی تجربات اور مشاہدات اس سے کافی مختلف نتائج بیان کرتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں نے 100 سال سے زیادہ حکمرانی کی پھر ایسٹ انڈیا کمپنی قابض ہوئی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے اقتدار کمپنی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ اس کے بعد 1857ء کی مشترکہ جنگ آزادی لڑی گئی جو ناکام رہی اور اس کے بعد مسلمانوں کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ اس دور میں سر سید احمد خان کا انگریزی زبان تعلیم کو قبول کرنا اور مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنا اپنی نوعیت کا ایک احسن اقدام تھا کیونکہ انگریزی زبان برصغیر کے مسلمانوں اور تاج برطانیہ کے انگریزی کے درمیان ایک خلیج کی حیثیت رکھتی تھی۔ دونوں کے درمیان ابلاغ کا عمل رک چکا تھا۔
ایسے میں سر سید احمد خان کی بصیرت تھی کہ انہوں نے حالات کو قبول کیا اور مغربی طرز تعلیم کے فروغ کے لیے کام شروع کیا لیکن اس وقت بھی بہت سے لوگوں کو اس نظام تعلیم سے اختلاف تھا اور بطور مسلمان یہ ان کا حق تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کے پاس باقاعدہ اپنا نظام تعلیم تو تھا لیکن عملی طور پر ان حالات میں اس نظام تعلیم کی ترویج و اشاعت مشکل تھی۔ مسلمانوں کی اکثریت نے سر سید کے فارمولے کو قبول نہ کیا، حالانکہ تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو اردو اور ہندی الگ الگ زبانیں ہیں یہ بات سر سید سے ہی منصوب کی جاتی ہے اس لحاظ سے دو قومی نظریہ کا پہلا بیج تو سر سید نے اس وقت لگا لیا تھا کیونکہ انہوں نے قبول کرنا سیکھیں لیا تھا۔
اب ہم موجودہ حالات میں دیکھیں تو ہم بطور قوم بہت سے حقائق کو قبول نہیں کرتے۔ ملک پر کئی گنا قرض ہے لیکن ہماری عیاشی اس طرح قائم و دائم ہے۔ آج اگر اللہ نہ کرے قوم پر مشکل وقت آجائے تو ہم وہ بھی قبول نہیں کریں گے۔ اس وقت مہنگائی نے غریب کی کمر کیا پورے کے پورے غریب کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ چینی اور پیٹرول کی قیمتوں میں سو گنا سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ لیکن ہماری انتظامیہ کا عمل اس بات کا عکاس ہے کہ انہوں نے مہنگائی کو قبول نہیں کیا۔ کیونکہ اگر انتظامیہ مہنگائی کو قبول کر چکی ہوتی تو ہر علاقے کے پرائس کنٹرول مجسٹریٹ یوں آرام سے دفتروں تک محدود نہ ہوتے۔
بزرگوں سے سنتے ہیں کہ ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہوگیا تھا یہ ماضی کی بات ہے اس وقت کے صدر نے غالبًا نے ریڈیو پاکستان سے ایک بیان جاری کیا دوسرے دن پورے ملک کے ذخیرہ اندوزوں نے آٹا عوام کے لیے پیش کر دیا۔ یہ ماضی کے لوگوں کی بات ہے کہ انہوں نے حالات کو قبول کیا اور عوام کو ریلیف دیا۔ آج کے حکمران ماضی کی نسبت گئی گنا زیادہ مضبوط ہیں لیکن شاید وہ قبول کرنے عمل میں ابھی پیچھے ہیں۔
اگر پوری قوم جس میں ہم سب شامل ہیں۔ حالات کو قبول کرنا سیکھ لیں تو چیزیں کافی حد تک بہتر ہوسکتی ہیں۔ ضرورت اس عمل کی ہے کہ ہم عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان حالات کو قبول کریں اور ان کے عمل میں نظر بھی آئے۔ اس وقت ملک میں آئین کی بالادستی اور سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ نگران حکومت کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ لیکن عوام مور سے زیادہ اومور کی مشہوری پر عمل کر رہی ہے۔ یقیناً ایک دن ریاست حالات کو قبول کرنا سیکھ جائے گی۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں درست چیزوں اور حالات قبول کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔