Mosam e Khizan
موسم خزاں
خزاں کا نام سنتے ہی آنکھوں کے سامنے سوکھے پتے اور بے رونق باغ کا منظر آ جاتا ہے۔ اردو ادب ہو یا انگریزی ادب موسم خزاں سے دونوں اطراف کے شعراء حضرات نالاں نظر آتے ہیں۔ موسم خزاں بھی دوسرے موسموں جیسا موسم ہے جس کی اہمیت کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انسان بنیادی طور پر حسن پرست ہے کیونکہ یہ اولاد آدم جنت سے نکالی ہوئی مخلوق ہے اور یہ مخلوق اپنی تمام عمر اس جنت جیسے حسن کی تلاش میں خرچ کر دیتی ہے۔
موسم خزاں کو اختتام اور آغاز دونوں ہی کا موسم کہا جاسکتا ہے۔ یہ انسان کے مزاج اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر ہے کہ وہ کون سا پہلو تلاش کرتا ہے۔ موسم خزاں اور موسم سرما دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ویسے تو موسم خزاں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ہجر و فراق کا موسم ہے لیکن غور کیا جائے تو موسم خزاں جب موسم سرما کے ساتھ اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو انہیں سرد شاموں میں احباب کی محافل سجتی ہیں۔ رات کے وقت خاندان کے لوگوں کا آگ کے ارد گرد جمع ہو کر بیٹھنا اور قصے کہانیاں سنانا ساتھ ساتھ چائے اور خشک میوہ جات کی سوغات اپنی مثال آپ ہے۔
بعض ماہرین نفسیات کے مطابق موسم خزاں و سرما کے دوران ذہنی تناؤ میں شدت آجاتی ہے۔ اس متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماحول میں خوبصورتی کے وہ مناظر جن کا ذکر ادب کی کتب میں کثرت سے ملتا ہے یہ خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ اشجار کی ہری چادر زرد رنگت اختیار کر لیتی ہے اور کئی مہکتے پھول اپنے آبائی پودے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ ہو جاتے ہیں۔ جب باہر کا موسم اس قدر ویران و اداس ہو تو آنکھوں کے ذریعہ یہی منظر ذہن و دل پر بھی نقش ہوجاتا ہے اور انسان ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگتا ہے۔
پھر جب یہی خزاں اپنے قہر پر آتی ہے اور پتے شاخوں سے جدا ہونے لگتے ہیں تو انسان کے لیے بھی سبق ہوتا ہے کہ زندگی کی شاخ سے ایک دن انسان بھی خشک ہو کر اسی طرح گر جائے گا۔
موسم خزاں جہاں جدائی کا الم بردار ہے وہی چند نئی فصلیں اور پھل بھی اسی موسم کی گود میں پرورش پا رہے ہوتے ہیں اور اپنے مقرر وقت پر پک کر تیار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے انسان کے لیے کئی نعمتیں پیدا فرمائی ہیں اور ہر نعمت کے لیے ایک خاص لائحہ عمل بھی مقرر فرما دیا ہے۔ یہ انسان ہی نا شکرا ہے جو ان نعمتوں کے لیے نہ شکر کرتا ہے اور نہ ہی ان کے حصول کے لیے صبر۔
موسم خزاں سردی اور گرمی کے نصف کا موسم ہے اس وجہ سے اسے جہاں موسم سرما سے منسلک کیا جاتا سکتا ہے وہاں موسم گرما سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس موسم خزاں میں دن کے دورانیہ میں کمی ہونے لگتی اور یہی حال درجہ حرارت کا بھی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی زیادہ نسبت موسم سرما قائم ہے۔ اس موسم میں مختلف جانور اپنے لیے خوراک جمع کرنے لگتے ہیں تاکہ موسم سرما کے دوران خود کو زندہ رکھ سکیں۔
موسم خزاں میں جب شامیں سرد ہونے لگتی ہیں تو چائے کے دیوانوں کا دل بھی مچل اٹھتا ہے۔ موسم خزاں کی سردی کو چائے کی کثرت کا پیش خیمہ کہا جاسکتا ہے۔ جب گرم آنچ پر سفید دودھ میں کالی پتی اور کسی گنے کی رو سے بنی چینی کے ملاپ سے چائے تیار ہوتی ہے اور خزاں کی شام میں جب اس گرم چائے کے کپ سے بھاپ کی طرح دھواں اٹھتا ہے تو کئی دھندلے مناظر بھی آنکھوں کے سامنے آنے لگتے ہیں اور یہ سب کچھ موسم خزاں کا ہی فیض ہوتے ہیں۔
اسی موسم خزاں کی لمبی راتوں کو جب ماضی کی تحریر کردہ ڈائریاں کھولی جاتی ہیں اور اس میں رکھی گلاب کی خشک پتیاں اپنی دھیمی دھیمی مہک میں اس محبوب کی یاد تازہ کرتی ہیں جس کے نام کبھی یونیورسٹی میں موجود درخت کے پتوں پر لکھے جاتے تھے اور ماضی کے موسم خزاں میں ان پتوں کو تلاش کرکے اپنے پاس محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ یہ تمام یادیں موسم خزاں کی ہی مرہونِ منت ہیں۔
اسی موسم خزاں میں جب خشک پتوں پر چلنے سے جو چرمراہٹ پیدا ہوتی ہے اور ایک آواز کانوں میں گونجتی ہے تو اس وقت ذہن میں اس دوشیزہ کے پاؤں میں موجود پائل کی چھنکار سنائی دیتی ہے اور پھر ہلکے سا رقص کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ موسم خزاں یادوں کا موسم ہے۔ ان حسین یادوں کا موسم جو ماضی کے اوراق میں دب کے رہ جاتی ہیں لیکن موسم خزاں کہیں نہ کہیں ذہن کے بند گوشوں سے انہیں تلاش کرکے مزاج کو آسودگی بخشتا ہے۔ یہی زندگی کا چکر ہے اور یہی موسم خزاں کی کہانی ہے۔