Kya Ab Bhi Ittefaq Mein Barkat Hai?
کیا اب بھی اتفاق میں برکت ہے؟
ہر معاشرے میں کچھ جملے بہت شہرت حاصل کرتے ہیں اور زبان زدِ عام ہوتے ہیں۔ بطور پاکستانی آپ نے سکول دور یہ جملہ ضرور پڑھا اور سنا ہوگا کہ اتفاق میں برکت ہے۔ اس جملے سے منسوب ایک کہانی بھی اردو کے نصاب میں شامل ہے غالباً۔ کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں لکھا تھا کہ اس قوم نے کیا ترقی کرنی ہے؟ جس کا کتا لالچی ہے اور کوا پیاسا ہے۔ تو بچپن کی بہت سی کہانیاں اور جملے ذہن میں گردش کرنے لگے، ان میں ایک جملے یہ بھی تھا کہ اتفاق میں برکت ہے۔ تو یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا آج اتفاق میں برکت ویسے ہی موجود ہے یا نہیں۔
سب سے پہلے ہم لفظ اتفاق کو دیکھتے ہیں۔ اردو لغت کے مطابق اتفاق سے مراد دو یا زیادہ چیزوں کا اجتماع ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی یہ ہی معنی سمجھا جاتا ہے۔ اب برکت کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اس سے مراد فیض، صدقہ یا طفیل ہے۔ اب دونوں الفاظ کے مرکب سے جو اتفاق میں برکت ہے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ملکی سطح سے لے کر گھریلو سطح تک جو اتفاق میں برکت اس وقت پاکستانی معاشرے میں موجود ہے اس کی مثال شاید ہی کہیں ملے۔
پاکستانی سیاست میں پی ڈی ایم کا اتفاق اور اس کی برکت تو اس وقت پورے پاکستان میں نظر آرہی ہے۔ پوری قوم اس کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ شاید یہ بھی اتفاق کی کوئی برکت ہو۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہیں وہاں اس طرح کے جملے کہنے اور سننے کی حدتک بہت مغلوب کرتے ہیں۔ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ آج وہ اتفاق جس میں برکت ہے ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ ہر طرف ایسے جملے بول کر صرف اور صرف نسلوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔
آج ہم اپنے گھروں میں ہی دیکھ لیں کیا اتفاق میں برکت ہے؟ کیا جو خاندان اکٹھے رہ رہے ہیں ان کے حالات کیا ہیں؟ ایک فرد کما رہا ہے اور دس اس کی کمائی کھا رہے ہیں۔ جب پوچھیں کیا حالات ہیں تو کہتے ہیں بھائی مہنگائی نے مار ڈالا ہے اور دوسری طرف یہی لوگ گلیوں اور چوراہوں کی محافل میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اتفاق میں برکت ہے۔ دوسری طرف انہیں خاندانوں میں ایسے خاندان موجود ہیں جہاں فرد واحد تمام تر وسائل پر قابض ہے اور باقی خاندان کے لوگ کو وہ فرد واحد ایک ہی جملہ الاپ رہا ہوتا ہے کہ اتفاق میں بہت برکت ہے۔
آج کے دور میں جو اتفاق کے نام پر اتحاد بن رہے ہیں ان میں کہیں بھی برکت نظر نہیں آرہی۔ ملکی سطح ہو یا عالمی سطح پر ہر جگہ نتائج میں تباہی شامل ہے۔ نیٹو افواج کے اتفاق و اتحاد سے لے اقوام متحدہ کے اتفاق و اتحاد کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ اگر کوئی دانشور یہ کہہ دے کہ یہ تو کفار کے بنائے ہوئے اتفاق و اتحاد ہے تو پھر اس جملے کی عالمی سطح پر نفی ہو جاتی ہے کہ اتفاق میں برکت ہے۔
ہمارے معاشرے میں مختلف رنگ اور اقسام کے نیلے پیلے چورن فروخت ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ اس ملک میں کتنے اتفاق و اتحاد ہوئے اور ہر ایک کے نتائج تاریخ میں رقم ہیں۔ 1990ء کا اسلامی جمہوری اتحاد ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور اسی طرح بعد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اتفاق و اتحاد بھی آپ کے سامنے ہے۔ ہردور میں جو نام استعمال کیا گیا اور جو عمل کیاگیا دونوں میں قطعی مماثلت نہیں رہی۔ اس وقت ملک میں جو معاشی و سیاسی عدم استحکام ہے اس کا زمہ دار کون ہے؟ چند مفاد پرست لوگوں کا اتفاق و اتحاد ہی تو ہے جو ملک و قوم کو اس کنارے پر لایا ہے۔
کچھ ہفتوں قبل میرے علاقے کے ایک نوجوان نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خود کشی کی تھی اور آج صبح پھر خبر ملی کے میانوالی کے نوجوان نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لی ہے۔ یہ ہیں نتائج ہمارے اتفاق و اتحاد کے۔ نہ گھروں میں وہ اتفاق ہے جس سے برکت ہو اور نہ ملکی سطح پر وہ اتفاق ہے جس میں برکت ہو۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس اتفاق میں برکت ہے؟ بطور مسلمان ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اتفاق میں برکت سے مراد کیا ہے؟ جب دلوں میں کینے اور حسد نہیں ہوں گے، جب دلوں میں منافقت نہیں ہوگی، جب اللہ کی عطاء پر ہمیں صبر و شکر کی توفیق ہوگی، جب نفس کی خواہشات پر قابو ہوگا اور جب آپس کے معاملات میں انصاف ہوگا۔ تب جاکر اس اتفاق میں برکت پیدا ہوگی۔ ورنہ اتفاق کے نام یہ ہجوم اکٹھے ہوتے رہیں گے اور نتائج فقط تباہی ہی ہوں گے۔ آج ہم اسلام سے بہت دور جا چکے ہیں اور فقط باتیں ہیں جو ہر جگہ کی جارہی ہیں عمل صفر بٹا صفر ہے۔
اگر اتفاق کی برکت سے ہم نے فیض یاب ہونا ہے تو ہمیں پہلے دلوں کو صاف کرنا ہوگا۔ کفار آج ان جملوں کا فیض حاصل کر رہے ہیں لیکن ہمیں کیوں نہیں ہورہا؟ کہتے ہیں کفر کی حکومت رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں۔ یہاں تو ظلم بھی اتفاق کی صورت میں برکت بننے کی کوشش میں ہے۔ ظالم لوگوں پر ہی ظلم کی حکومت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں نچلے درجے کا ظلم عام ہے اور اس ظلم کو اتفاق کا نام دیا جاتا ہے۔