Ehtesab Ke Band Darwaze
احتساب کے بند دروازے

کہتے ہیں دروازے کو بند کرنے کے لیے کنڈی دونوں جانب ہوتی ہے۔ اب عام عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس دروازے کو کس جانب سے بند کر دیا گیا ہے۔ باہر سے دیکھیں تو دروازہ بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ اتنا دور کے عام آدمی کو بس بند نظر آتا ہے۔ دفتروں، کلرکوں اور بابوؤں کے مارے لوگ اس احتساب کے دروازے پر دستک دینا چاہتے ہیں لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتے۔ بہت سے ہیلپ لائن نمبر سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں لیکن ان پر شکایات کرنے والوں کی کتنی سنوائی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے بہتر جانتے ہیں۔ گریڈ سترہ کے کسی افسر بادشاہ سے واسطہ پڑ جائے تو نہ احتساب کا دروازہ ملتا ہے نہ کوئی ہیلپ لائن نمبر۔
دھڑا دھڑ پروجیکٹ بنائے جا رہے ہیں۔ شہروں کو خوبصورت بنایا جا رہا ہے۔ اس خوبصورتی پر خرچ ہونے والی رقم اور آرائشی اشیاء کے معیار پر کوئی احتساب نہیں۔ تھرڈ کلاس مٹیریل کا استعمال کرکے شہروں کو سجایا جا رہا ہے اور اگر کسی چیز کو پبلک ہاتھ بھی لگا لے تو جرمانے عائد کر دیئے جاتے ہیں اور افسر شاہی جاگ جاتی ہے۔ بعض جگہوں پر ایسے ناقض مٹیریل سے بنے مجسمے اور آرائشی چیزیں لگائی جاتی ہیں کہ چھونے سے ٹوٹ جائیں اور پھر ان کی حفاظت کے لیے بھی کوئی مناسب حفاظتی چیز نہیں لگائی جاتی بلکہ اس سے ملحقہ دوکاندار اور رہائشی لوگوں کو افسران بالا بے جا پریشان کرتے ہیں۔
بڑوں شہروں میں ایسے معاملات کم ہوں گے لیکن چھوٹی تحصیلوں میں ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ جب سے وفاقی محتسب کے ادارے نے خاموشی اختیار کی ہے۔ بہت سے ادارے تو نہیں لیکن ان کے اہلکار بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑ رہے ہیں۔ عام عوام کی حاکم وقت سے گزارش ہے کہ اللہ کے نام پر یہ احتساب کا دروازہ کھول دیں اور اگر کھول نہیں سکتے تو اس پر دستک کی اجازت تو دیں تاکہ عوام کو یقین رہے کہ یہ دروازہ کبھی کھل جائے گا۔
لفافہ صحافیوں کی کثرت نے حق سچ کی آواز کو دبا دیا ہے۔ عوامی مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی۔
ہم بحیثیت مسلمان حضرت عمر فاروقؓ کی وہ چادر والی مثال دیتے ہیں کہ ایک عام آدمی بھی اٹھ کر امیر المومنین یہ سوال کرسکتا تھا جن کی حکومت براعظموں پر تھی۔ یہاں ایک ادنیٰ سے ملازم پر سوال کیا جائے تو اس کی پاداش میں نسلوں کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ کسی دور میں تعلیمی ادارے کرپشن سے پاک تھے آجکل سکول و کالجز میں بھی طلباء سے کئی طرح کے جرمانوں کی مد میں نوٹ بٹورے جاتے ہیں۔
حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اینٹی کرپشن محکمہ کو بھی فال فرمائیں نیب کے ادارے کو بھی جگا دیں۔ جو پروجیکٹ چل رہے ہیں یا تو آئی ایم ایف کے قرضے سے چل رہے یا پھر عوام کے ٹیکس سے اور دونوں ذرائع کے رقم کا احتساب نہایت ضروری ہے۔ امید ہے عوامی امنگوں پر حکومت وقت کان دھرے گی اور احتساب کے دروازے پر اور کچھ نہیں تو ایک گھنٹی ہی لگا دے گی جس کی ڈنگ ڈونگ کی آواز سے عوام خوش ہوتی رہے گی۔

