December Ka Khwab
دسمبر کا خواب
تمہیں معلوم ہے یہ دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے۔ یہ سرد شامیں، خون کو منجمد کر دینے والی یخ ہوائیں، درختوں پر زرد ہوتے پتے سب کے سب اختتام کی طرف جا رہے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں کی طرح یہ سال بھی گزر رہا ہے۔ تم تو پہلے بھی اداس تھے اور آج بھی اداس ہو۔ کیا یہ اداسی دسمبر سے منسلک ہے؟
نہیں، تمہیں تو عادت ہے غمگین ہونے کی۔ تم تب بھی رنجیدہ تھے جب ہمارے ہاتھوں سے لگے گلاب کے پودے پر پہلا بھول کھلا تھا۔ افسردگی کے عالم میں گھاس کی ان سبز کوملوں کو بھی روند کر چلے گئے تھے جن کی پرورش بہار کی بوندوں نے کی تھی۔ میرے سوال کا جواب تو دے دو، کیوں ہمیشہ اضطراب کی حالت تم پر غالب رہتی ہے؟
(سیاہ چادر میں ملبوس وہ نقاب پوش لڑکی جب سوال کرنے پہ آئی تو ایک کے بعد ایک سوال کسی مشین گن کی گولیوں کی طرح برساتی ہی چلی گئی)۔۔
ہاں محترمہ آپ کہہ سکتی ہیں بلکہ صرف آپ ہی یہ بات کہہ سکتی ہیں۔ اس چہرے پر جو شکستگی کا نشان نقش ہے اس پر سوال کرنا بنتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے میں اپنا پورا سال دسمبر کی یاد میں گزارتا ہوں (لمحہ بھر وہ خاموش ہوا اور پھر خود ہی بولنا شروع کر دیا) یہ دسمبر ہی تھا جب آرمی پبلک سکول پشاور کے بھول مرجھا گئے تھے۔ جب میں اپنے ہاتھ سے لگے گلاب کے پودے کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان بھولوں کی یاد آتی ہے جن کے ننھی شرارتوں سے گھر کے آنگن مہک اٹھتے تھے۔
مجھے آج بھی ڈھاکہ سے کچھ آوازیں آتی ہیں کہ انصاف کرو ظالم کون تھا؟ میں اس ماڈرن دور کا انسان ہوں۔ مجھے رومنٹک ہونا اچھا لگتا ہے لیکن مجھے جو سیکھایا گیا وہ تو درد دل تھا ناں؟ میرا ہر دسمبر ان دو تاریخی سانحات کی نظر ہو جاتا ہے۔ (شایان کی آنکھیں نم تھیں اور وہ سوالیہ انداز میں مسلسل دعا سے نظریں ملانے کی کوشش میں تھا) میں ایک لڑکا ہوں مجھے اپنے مستقبل کی فکر ہونی چاہیے مجھے تمہارے اور اپنے خوابوں کی فکر ہونے چاہیے لیکن یہ دسمبر کی اداسی میرا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔
میں جانتا ہوں دعا تم بھی ایک خیال ہو، وہ خیال جو کسی تخیل کو جلا تو بخش سکتا ہے لیکن کسی کے دائمی اطمینان کا باعث نہیں ہوسکتا۔ میں تمہارے خواب دیکھنا چھوڑ دوں گا یہ خواب اس دسمبر کا آخری خواب ہوگا۔ (ابھی دعا کی آنکھوں میں موتی نمودار ہی ہوئے تھے کہ شایان کو کوئی آواز سنائی دینے لگے اللہ اکبر اللہ اکبر خواب سے بیدار ہوتا شایان پھر اپنے دن کے نئے سفر کو چل نکلا)۔