Dard Bhi Khainch, Meri Tasveer Ke Sath
درد بھی کھینچ، میری تصویر کے ساتھ

اقوام متحدہ کا وفد وزارتِ خارجہ کے دفتر میں پہنچ چکا تھا۔ ٹھیک دو دن بعد مسٹر شایان نے اس وفد کے سامنے اپنے کریئر کی پہلی پریزنٹیشن دینی تھی۔ سی ایس ایس کرنے بعد شایان کے لیے یہ پہلی اسائمنٹ تھی۔ یہ وفد ایک ایسے پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا جس میں مختلف خاندانوں کی مالی کفالت شامل تھی۔ ایڈیشنل سیکرٹری معراج خٹک نے شایان کو اس پروجیکٹ کا کوارڈینیٹر مقرر کیا تھا۔
شام کے تقریباً پانچ بج چکے تھے اور مسٹر شایان اپنا سر دونوں ہاتھوں سے ایسے پکڑے بیٹھے تھے جیسے کسی اذیت میں مبتلاء ہوں۔ اسی اثناء میں دروازے پر دستک ہوتی ہے، سر کیا اندر آسکتا ہوں؟ شایان اپنا حلیہ درست کرتے ہوئے، ہاں ہاں رمضان اندر آجاؤ۔ رمضان، سر شام کے تقریباً پانچ بج چکے ہیں۔ کیا آج آپ گھر نہیں جائیں گے؟ میں کب سے گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ شایان اضطراب کی حالت میں رمضان سے مخاطب ہو کر گویا ہوا کہ یار رمضان! اپنے کرئیر کی پہلی پریزنٹیشن دینی ہے اور میرے پاس تو کوئی مواد ہی موجود نہیں ہے۔ کہاں سے لاؤں غریب خاندانوں کی تصاویر؟ جواباً رمضان نے کہا سر جی اللہ پاک بہتر فرمائے گا۔
شایان ان دنوں بحریہ ٹاؤن فیز سیون کے ایک پانچ مرلہ مکان میں رہائش پذیر تھا۔ شایان اور رمضان بلیک کلر کے ویگو ڈالے پر سوار تھے۔ جس کا نمبر پانچ سو پچپن تھا۔ نیلی بتی روشن کی ہوئی جب یہ گاڑی جی ٹی روڈ کے قریب ٹی چوک پر پہنچی تو رمضان حسرت بھری نگاہوں سے نیو شنواری ریسٹورنٹ کی طرف دیکھنے لگا۔ شایان مسکراتے ہوئے، ہاں ہاں رمضان مجھے بھی بھوک لگی ہے۔ آج کڑاہی گوشت کھاتے ہیں۔ رمضان تشکرکے انداز میں، جی جی سر! یہاں شاید کسی غریب خاندان کی کہانی بھی مل جائے۔
دو کلو مٹن کڑاہی کا آرڈر دینے کے بعد وہ دونوں ٹیبل نمبر پانچ پر انتظار کرنے لگتے ہیں۔ اسی دوران شایان کو ریسٹورنٹ کے سامنے ایک عورت نظر آتی ہے۔ جس کی عمر لگ بھگ چالیس سال کے قریب ہے۔ انہتائی پھٹے پرانے لباس میں وہ عورت لوگوں کو میڈیکل رپورٹس دیکھا کر رقم مانگ رہی ہوتی ہے۔ شایان فوری طور پر رمضان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ رمضان! پریزنٹیشن کا مواد مل گیا۔ شایان اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ چہرے خود ہی اپنی کہانی بیان کرتے ہیں۔ جلدی سے اپنے موبائل کا کیمرہ اوپن کرو اور اس عورت کی تصویر بنا لو اور یہ پانچ ہزار کا نوٹ بھی اس عورت کو دے دو۔ رمضان بھی اپنے صاحب کے لیے یہ کام کرنے کو جیسے تیار کھڑا تھا۔ چند ہی سیکنڈ میں تصویر شایان کے ہاتھوں میں تھی۔
رات کے تقریباً ایک بج چکے تھے اور مسٹر شایان اپنی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ شایان اس بات پر بہت خوش تھا کہ آخر کار اس کو متعلقہ مواد مل گیا جو دو دن اس نے وفد کے سامنے پریزنٹ کرنا تھا۔ شایان مسلسل اس چالیس سالہ خاتون کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ موبائل کی گیلری میں موجود تصویر دیکھتے ہوئے شایان خود کلامی کے انداز میں کہہ رہا تھا۔ آج تک کسی دردمند غریب کو اتنے غور سے دیکھا ہی نہیں۔ اس عورت کے چہرے سے اس کی درد بھری کہانی کے تمام آثار نمایاں ہیں۔ مجھے اس عورت کا گھر تلاش کرنا چاہیے تاکہ کل کو میں اس کی عملی مدد بھی کرسکوں اور فنائشنل ایڈ کی رقم اس تک پہنچا سکوں۔
صبح کی اذان ہوئی تو مسٹر شایان نے اپنے ہی کمرے میں نماز ادا کی۔ آفس کے لیے تیار ہوا اور رمضان کے ساتھ دفتر کے لیے روانا ہوا۔ صبح کا ناشتہ اکثر ولایت کمپلیکس میں موجود کوئٹہ ہوٹل پر کرتا تھا۔ اس روز دفتر جانے کی جلدی تھی مگر شایان اس دن بھی چائے اور لچھے دار پراٹھہ کھانے لیے اسی کوئٹہ ہوٹل پر رکا۔ ہوٹل پر کافی لوگ موجود تھے اور صرف ایک ٹیبل ایسا تھا جہاں پر تین کرسیاں خالی تھی اور ایک کرسی پر ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ گل خان جو اس ہوٹل پر ویٹر تھا حسب معمول شایان اور رمضان کو خوش آمدید کہا اور لڑکی سے گزارش کی کہ میڈم! کیا آپ سر کے ساتھ ٹیبل شیئر کرنا پسند کریں گی؟
لڑکی نے جلدی سے چائے کا گھونٹ پینے کے بعد تیزی سے کہا یس آف کورس۔ شایان اور رمضان نے بھی جلدی سے اس ٹیبل پر ناشتہ کیا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس دوران وہ لڑکی بھی اپنا ناشتہ مکمل کر چکی تھی۔ سر کیا آپ لوگ اسلام آباد کی طرف جا رہے ہیں تو پلیز مجھے لفٹ دے دیں۔ مجھے آفس جانا ہے۔ رمضان نے فوراً نفی میں سر ہلایا ہی تھا کہ شایان نے کہا میڈم جلدی سے آجائیں، میں بہت جلدی میں ہوں۔
بلیک ویگو کی پیچھی والی سیٹ پر دونوں ہی سوار ہوگئے تھے۔ گاڑی نے چلنا ہی شروع کیا تھا کہ لڑکی کے موبائل پر کال آنے لگی۔ وہ بار بار کال کٹ کر رہی تھی۔ شایان اپنا لیپ ٹاپ کھولے ہوئے کہنا لگا میڈم کال اٹھا لیں۔ لڑکی پریشانی کے عالم میں جی سر۔ ہیلو! امی پریشان نہ ہوں فوٹو شوٹ کے بعد فوری گھر آجاؤں گی۔ دوسری طرف سے روتی ہوئی آواز آ رہی تھی، بیٹی اپنی عزت کے متعلق سوچ لینا۔ لڑکی نے کال کٹ کردی۔ وہ اپنے آنسوں روکنا چاہتی تھی اور سسکیوں کی آواز کو دبانے کی مسلسل کوشش میں تھی۔ شایان اس کی جانب متوجہ ہوا۔ میڈم! آر یو او کے؟ لڑکی سوری سر۔ شایان آپ پلیز بتائے کیا بات ہے؟ لڑکی نہیں نہیں سر کچھ نہیں۔ شایان دیکھئے آپ مجھے پریشان نہ کریں مجھے فنانشل ایڈ کے لیے پریزنٹیشن تیار کرنا ہے۔ شایان قدرے غصے میں کیسے لکھوں غریب کی داستان؟ یہ سن کر لڑکی مزید شدت سے رونے لگی۔ شایان، رمضان سے مخاطب ہو کر یار گاڑی روکو۔
شایان میڈم آپ جا سکتی ہیں۔ لڑکی روتے ہوئے سر ہم غریبوں کی داستان اور ان کے درد چہروں سے کوئی نہیں پہچان سکتا ان کی داستانیں تو کسی تاریکی کی زد میں آکر خود ہی مر جاتی ہیں۔ ابو کی وفات کے بعد امی کا واحد سہارا ہوں۔ پردہ کرتی تھی تو کہیں جاب نہیں ملی۔ پردہ ختم کیا تو جاب مل گئی۔ آئے دن حراساں کی جاتی تھی۔ تنگ آکر جاب چھوٹی تو بھوک نے گھر میں رقص کرنا شروع کردیا۔ مجبور ہو کر ہر جگہ گئی۔ ایک میگزین میں بطور ماڈل کام ملا ہے۔ وہی فوٹو شوٹ کے لیے جارہی ہوں۔ پلیز مجھے پہنچا دیں۔ شایان خاموش ہو جاتا ہے اور وہ دونوں گاڑی میں دوبارہ اپنی اپنی منزل کو چل نکلتے ہیں۔ شایان راستہ میں لڑکی کو ایک آفس کے سامنے اتر دینے کے بعد آفس پہنچ جاتا ہے۔
میز پر پڑا ڈان کا اخبار جس میں اس چالیس سالہ خاتون کی تصویر دیکھائی دیتی ہے۔ شایان جلدی سے اس کے ساتھ لکھی گئی خبر کو پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ خاتون گداگروں کا ایک منظم گینگ چلا رہی تھی اور اس کے بینک اکاؤنٹ میں کئی کروڑ روپے جمع تھے۔ اس خبر کو پڑھنے کے بعد شایان نے متعلقہ رپورٹر سے بات کی اور حساس ادارے کے دوست سے معلوم کیا تو ساری خبر سچ نکلی۔ اگلی صبح شایان نے جو وفد کو پریزنٹیشن دیتی تھی اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ اس فنانشل ایڈ کی اصل حقدار وہ لڑکی ہے یا پھر یہ عورت۔ انسانی عقل کتنا دوکھا کھا جاتی ہے۔ ہم اتنا ہی دیکھ پاتے ہیں جتنا ہمیں دیکھایا جاتاہے۔ درد کا تعلق کسی خاص شکل و صورت یا حلیہ سے نہیں ہے۔ شایان نے جب اس لڑکی کی کہانی ایڈیشنل سیکرٹری کے سامنے رکھی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ کیونکہ وہ چاہتے کہ وفد کے سامنے پاکستان کا سافٹ امیج برقرار رہے۔ شایان نوکری کی خاطر خاموش ہو جاتا ہے۔ ایک فرضی کہانی اور پریزنٹیشن مہیا کی جاتی ہے جو وہ وفد کے سامنے پیش کرتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور اس بات کو دو ماہ گزر گئے۔ شایان ایک دوپہر اپنے آفس سے نکل کر چائے پینے ایک ہوٹل پر جاتا ہے۔ جہان ایک میگزین کے کور پر اسی لڑکی کی مسکراتی ہوئی تصویر لگی تھی۔ شایان چائے پینے کے بعد اپنے پن سے اس تصور کے اوپر یہ الفاظ لکھ کر چلا جاتا ہے کہ درد بھی کھنچ میری تصویر کے ساتھ۔

