Pheri Wale Ustad
پھیری والے استاد
سیکھنے اور سکھانے کا شوق انسان اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور تمام عمر اس مشغلے میں مصروف رہتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو دنیا دو گروہوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے، سکھانے والوں میں اور سیکھنے والوں میں۔ سکھانے والے کو عام زبان میں استاد اور سیکھنے والے کو طالبعلم کہا جاتا ہے۔ آج کی انسانی تہذیب انہی دو کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ تیزی سے رنگ بدلتی دنیا میں استادوں کی ایک جدید قسم وجود میں آ چکی ہے جس نے کم وقت میں اپنی افادیت منوا لی ہے۔ آج بات ہوگی visiting teacher یا پھیری والے استاد کے بارے میں۔
جانوروں کی تمام اقسام میں انسانوں کو یہ صلاحیت سب سے زیادہ دی گئی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو کچھ سکھانے کے لئے ہمہ وقت بے چین رہتا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی اس انسانی جبلت کی وجہ سے استادی شاگردی کا رشتہ وجود میں آیا۔ ہزاروں سال سے یہ غیر خونی رشتہ اکیسویں صدی میں سانپ کی طرح کینچلی بدل رہا ہے اور اس کی طرح طرح کی ان سنی شکلیں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ ہم کہ پچھلی صدی کے لوگ عجیب مخمصے میں ہیں کہ ہم نے جو پڑھا اور پڑھایا وہ مانیں یا آج جو زمانہ سکھا رہا ہے اسے مانیں۔
قدیم یونانی تہذیب میں استاد کا معاشرے میں بہت مقام اور عزت تھی جو بعد میں آنے والے ادوار میں بھی قائم رہی۔ نامی گرامی اساتذہ کے پاس علم کے طالب خود چل کر جاتے اور ان کی شاگردی اختیار کرتے۔ ان کی کہی باتوں کو لکھتے یعنی نوٹس بناتے اور ان پر بحث مباحثے کی محفلیں جمتیں اور یوں علم کے پھیلاؤ کا سبب بنتیں۔ بعد ازاں اسلامی تہذیب میں بھی یہ طریقہ رائج رہا۔ ایسے اساتذہ ایک جگہ مقیم رہتے لہٰذا ان کی بدولت مقیم اساتزہ کی قسم وجود میں آئی اور عرصہ دراز تک علم کے طالب دور دراز سے ان اساتذہ تک پہنچتے اور دیر تلک ان کے ساتھ رہتے۔
آہستہ آہستہ درس گاہیں بننا شروع ہوگئیں اور ان میں بہت سے اساتذہ اکھٹے ایک جگہ پر مختلف علوم کی تعلیم دینے لگے۔ یہی طریقہ آج تک رائج ہے اور سیکھنے والوں کی سہولت کے لئے ہر عمر کے طالبعلموں کے لئے درجہ بہ درجہ مختلف درس گاہیں کھلی ہیں۔ والدین اپنی جیب اور ذہن کے مطابق اپنے بچوں کو ان میں داخل کروا دیتے ہیں اور طلباء وہاں ایک خاص مدت تک رہ کر وہاں دی گئی تعلیمات سے مستفید ہوتے ہیں اور کوئی نا کوئی سند لے کر ہی وہاں سے نکلتے ہیں۔
ارض پاک میں اکیسویں صدی میں جہاں درس گاہوں کی بہت سی اقسام وجود میں آچکی ہیں وہیں علم بانٹنے والے استادوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں۔ ان میں مقیم استاد، پکے یعنی permanent استاد، معاہداتی یعنی contract استاد، سرکاری یا غیر سرکاری استاد یا پکے یا کچے استاد شامل ہیں۔ کرونا کے بعد ان میں غائب یا برقی یعنی online استاد اور پھیری والے استاد جنہیں عام زبان میں visiting teacher بھی کہا جا سکتا ہے الحمدللہ وجود میں آ چکے ہیں جو استادوں کی اقسام میں نیا اضافہ ہیں۔ ان جدید اقسام میں پھیری والے وہ استاد جو یونیورسٹیوں میں ان درسگاہوں کی ضرورت کے مطابق اپنا علم بانٹتے ہیں خاص توجہ کے مستحق ہیں۔
گذشتہ کچھ سالوں سے پنجاب کے سرکاری محکمہ تعلیم نے اچھے خاصے کالجوں کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے بیڑا اٹھا رکھا ہے اور دھڑا دھڑ ایسے ادارے وجود میں آ رہے ہیں جن سے منسلک لوگ رات سوئے تو کالج میں ہیں لیکن طلسم ہوش ربا کی مانند جاگتے یونیورسٹی میں۔ افق سے سورج طلوع ہوتے ہی کچھ اعلی نسل کے محکماتی جنات افسروں کے روپ میں بیچارے معصوم اساتزہ کو یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ اب ان کا درجہ کالج کی بجائے یونیورسٹی ٹیچر کا ہو چکا ہے لہٰذا وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
یہ خبر جاں فشاں سن کر معصوم سرکاری اساتزہ پر مرحلہ وار مختلف اثرات مرطب ہوتے ہیں جو پہلے خوشی اور پھر غم کی صورت ظاہر ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ تمام یونیورسٹیوں کی بے بے جان المعروف hec کے مادرانہ حکم کے مطابق صرف phd ڈگریاں رکھنے والے ہی یونیورسٹی میں پڑھا سکتے ہیں۔ چونکہ کالجانہ یونیورسٹیوں میں زیادہ تعداد MA پاس اساتذہ بھرتی کئے جاتے ہیں لہٰذا ان کا تجربہ اور علم ایک ہی جھٹکے میں عرش سے فرش پر آجاتا ہے۔ ایسے میں مختلف مضامین کے ماہر اساتذہ یک جنبش قلم نئی پیدا شدہ یونیورسٹی کے منظر نامے سے اچانک غائب ہو جاتے ہیں کیونکہ محکمانہ جناتی افسران نے اس پہلو پر غور ہی نہیں کیا ہوتا۔ یہاں اصل شاعر سے معذرت کے ساتھ یہ کہنا بنتا ہے کہ:
یونیورسٹی تو بنا دی شب بھر میں علم کے ٹھیکیداروں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں عالم بن نہ سکا
ارض پاک میں اس گھمبیر صورتحال میں پھیری والے استاد (خصوصی طور پر وہ جو ریٹائر ہو چکے ہوں) اپنے ٹھیلے پر اپنا تجربہ اور اسناد سجانے آواز لگاتے پھر سے میدان علم میں داخل ہوتے ہیں اور تادیر داخل رہتے ہیں۔ ان نئے نویلے اداروں میں پکے استاد رکھنے کے بجٹ کی کمی اور خاص مضامین میں phd نا ہونے کی وجہ سے یہ visiting teachers یا پھیری والے استاد خوب کام آتے ہیں۔ ان کے پاس علم اور تجربہ دونوں ہی کافی مقدار میں ہوتا ہے لہٰذا محکمہ ادارہ اور طلباء، سبھی خوش رہتے ہیں۔ بچپن میں پڑھی ابن انشاء کی نظم دم کٹے چوہے کے مصداق:
چوے میاں خوش
ان کی دم بھی خوش
ہم بھی خوش اور
تم بھی خوش
اس سارے قصے میں یوں معلوم پڑتا ہے کہ شب بھر میں یونیورسٹی بنانے کا سنہرا خیال ضرور کسی پھیری والے استاد نے ہی دیا ہوگا۔