Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qaswar Abbas Baloch
  4. Jandar, Aik Tehzeeb Ka Noha

Jandar, Aik Tehzeeb Ka Noha

جندر، ایک تہذیب کا نوحہ

عرصہ پہلے کسی نے اختر رضا سلیمی کا ناول "جندر" (جندر پتھر کے پاٹوں سے بنی ہوئی آٹا پیسنے کی مشین جسے تیز بہنے والے ندی نالوں پر بنایا جاتا) پڑھنے کی تجویز دی تھی۔ حال ہی میں کمیٹی چوک، راولپنڈی جانا ہوا تو کتابوں کی ایک دکان پر اس ناول پر نظر پڑی تو فوراً خرید لیا۔ ہاسٹل آ کر جیسے ہی پڑھنا شروع کیا، تو تحریر کی روانی اور اسلوب کے سحر میں ایسا جکڑا گیا کہ چند نشستوں میں ناول ختم کر ڈالا۔

جندر درحقیقت ایک معدوم ہوتی ہوئی تہذیب کا نوحہ ہے۔ جسے مصنف نے جندروئی کے زوال سے جوڑ کر منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔ دراصل یہ ثقافتی خلا (Cultural Lag) کی کہانی ہے۔ ایک ایسی کیفیت جہاں مادی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے، مگر غیر مادی ثقافتیں اس تبدیلی کا ساتھ نہیں دے پاتیں۔ یہی وہ خلا ہے جو نسلوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرتا ہے، جہاں بزرگوں کو نئی نسل بے راہ اور نوجوانوں کو پرانی نسل دقیانوسی لگتی ہے۔

اس میں جندروئی ولی خان، جو اپنے خاندان میں اس پیشے سے وابستہ آخری فرد ہے۔ جدید مشینوں نے اس کے جندر کی جگہ لے لی اور وقت کے ساتھ اس کا پیشہ بے وقعت ہوگیا، مگر وہ جندر کی مانوس آواز کو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس کا بیٹا، جو شہر میں جا بسا تھا، اسے بارہا کہتا رہا، مگر وہ اپنی زمین، اپنے جندر اور اپنی پہچان سے جڑا رہا۔ اب جب وہ قریب المرگ ہے، ایک گہری سوچ میں گم ہے۔۔ اس کے بعد کون اس جگہ سے گزرے گا؟ کب کسی کو اس کی موت کی خبر ہوگی؟ یا پھر اس کی بے جان لاش کو کیڑے مکوڑے ہی کھا جائیں گے؟

جندروئی کہتا ہے کہ گاؤں والوں سے اس کا رشتہ اس وقت تک مضبوط تھا، جب تک وہ "ٹریکٹر" نامی فتنے سے آشنا نہ ہوئے۔ ٹریکٹر کی آمد نے لوگوں کو خود مختار تو کر دیا، مگر اس کے ساتھ ہی وہ نظام بھی ختم ہوگیا جو گاؤں کے افراد کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا تھا۔ اس سے پہلے، فصلوں کی بوائی، کٹائی ایک اجتماعی اور رضاکارانہ عمل تھا، جس میں سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ لیکن جب ٹریکٹر آیا، تو یہ روایت دم توڑ گئی اور گاؤں کی سماجی ہم آہنگی بھی متاثر ہوئی۔

جدیدیت نے لوگوں کو خود مختاری تو دی لیکن اس کے ساتھ ہی لوگوں کے درمیان فاصلے بھی بڑھا دیئے اور پرانے ریت و رواج سے جدیدیت تک کے سفر میں سب سے زیادہ اثرات ان لوگوں پر ہوئے جو پرانی رسم و رواج کے ساتھ جڑے ہوئے تھے، جیسے کہ جندروئی۔ جدیدیت ان کے لیے گویا موت کا پیغام ثابت ہوئی۔ وہ کسی شاعر نے خوب کہا۔

شوکتؔ ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا!

ناول سے منتخب کیے گئے اقتباس۔۔

"اب ہر آدمی آزاد اور خود مختار تھا وہ جب چاہتا ٹریکٹر والے کو بلوا کر زمین بیج ڈالتا اور جب چاہتا تھریشر کے ذریعے دانے اور بھوسا الگ کروا لیتا۔ یہ خود مختاری غیر محسوس طریقے سے لوگوں کی رگوں میں دوڑنے لگی اور لوگ ایک دوسرے سے کٹتے چلے گئے۔ اگلے چند ہی سالوں میں شادی بیاہ اور ماتم وغیرہ کے لیے برتن بھی جو پہلے تمام گاؤں والوں کے گھروں سے اکٹھے کیے جاتے تھے ٹینٹ سروس والوں کی دکانوں سے آنے لگے اور قبریں مزدوری پر کھودی جانے لگیں"۔

"زندگی کے ہزار رنگ ہیں مگر موت کا ایک ہی رنگ ہے، سیاہ رنگ، جو زندگی کے تمام رنگوں کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ مجھے زندگی کا شعور بعد میں ہوا۔ میں نے موت کے سیاہ رنگ کا شعور پہلے حاصل کیا۔۔

لیکن میرے خیال میں موت کہیں باہر سے وارد نہیں ہوتی وہ زندگی کی سرشت میں شامل ہوتی ہے۔۔ جوں ہی کسی وجود میں زندگی ترتیب پاتی ہے، موت بھی اس میں پناہ حاصل کرلیتی ہے اور زندگی کو اس وجود سے باہر دھکیلنے کا عمل شروع کر دیتی ہے"۔

"خدا اور موت کے درمیان کوئی گہرا تختہ ہے لیکن میں اس گتھی کو آج تک نہیں سلجھا سکا کہ خدا نے موت کو خلق کیا یا موت نے خدا کو۔

خدا کے وجود سے انکار کرنے والے تو آج بھی دنیا میں بے شمار موجود ہیں مگر شائد ہی دنیا میں کوئی ایسا با شعور انسان ہو جو موت کے وجود سے انکاری ہو۔ موت پر سب کا ایمان ہے۔ ہر باشعور انسان کو موت کا بھی اتنا ہی یقین ہوتا ہے جتنا کہ زندگی کا، لیکن وہ اس سے صرف نظر کرکے خود کو محفوظ سمجھتا رہتا ہے"۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan