Hazar Aye Cheera Dastan
حذر اے چیرہ دستاں
"ہم ریڈ انڈین نہیں ہیں۔ ہم عجائب گھروں کی زینت نہیں بنیں گے"۔
فلسطین کی تحریکِ آزادی کے روح رواں مرحوم یاسر عرفات کا یہ قول ایک طرف امریکیوں کے جبر و استبداد کے شکار ریڈ انڈینز کا نوحہ تھا تو دوسری طرف فلسطینیوں کے جذبۂ حریت کا قطعی اور جرآتمندانہ اعلان۔ یہ مفلوک الحال مگر غیّور قوم آٹھ دہائیوں سے ظلم اور جبر کے سامنے ایک شان سے کھڑی ہے اور اس کے سامنے ہے صیہونی ریاست اسرائیل جس کی پشت پر تاریخِ انسانی کی طاقتور ترین سلطنت امریکہ اپنی اعلانیہ حمایت اورتمامتر مالی اور عسکری وسائل کے ساتھ موجود ہے۔
فلسطینیوں کے بدن آتش و آہن کی بو چھاڑ سے چھلنی ہو رہے ہیں لیکن پائے استقامت میں لرزش نہیں آئی۔ شاید ہی کوئی ایسا آنگن ہو جہاں ماں نے اپنی کوکھ سے پھوٹنے والے غنچے کو کھلنے سے پہلے ہی صیہونی آگ کی تپش سے مرجھاتے ہوئے نہ دیکھا ہو لیکن کاروانِ جہاد میں شمولیت کے خواہشمندوں کی تعداد کم نہیں ہو رہی۔ صیہونی غضب کا یہ عالم کہ ہوائی جہازوں اور ٹینکوں سے برسائے گئے بارود کی زد میں آئے مجروح مظلوموں کی مرہم پٹی کرنے والے شفاخانے بھی ملیا میٹ کیئے جارہے ہیں۔
ماضی میں صیہونی توسیع پسندی کے سبب بے گھر ہونے والے فلسطینیوں پر زمین اس قدر تنگ کی جا رہی ہے کہ ان کی عارضی قیام گاہ جبالیہ کی پناہ گزین بستی بھی بارود سے ملبے کا ڈھیر بنا دی گئی ہے لیکن اس جری اور حریت پسند قوم نے سر جھکانے سے انکار کر دیا ہے۔ جسم لہو لہو اور تارتار لیکن روح توانا اور سرشار۔
کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
یہ ظلم اس قوم کے ساتھ ہو رہا ہے جو مسجدِ اقصیٰ کی والی اور خادم ہے۔ وہ مسجدِ اقصیٰ جو معراج النبیﷺ کی ایک یادگار اور سرکارِدوعالمﷺ کے منصبِ امام الانبیا کی گواہ ہے۔ امتِ رحمۃللعلمینﷺ کا یہ حصہ آج مغضوبوں کے غضب کا نشانہ ہے اور اس ظلم پر بے حسی اور بے اعتنائی کی چادر اوڑھ رکھی ہے اس امت نے جس کے متعلق ارشاد ہوا تھا کہ مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں جس کا ایک عضو اگر تکلیف میں ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ یہ فرمان درسی کتابوں میں جا بجا نظر آتا ہے اور منبر و محراب سے بھی لگاتار دہرایا جاتا ہے لیکن عالمِ اسلام کے ہر خطے کی اشرافیہ نجانے اندھی اور بہری ہو چکی ہے یا پھر اس کی درسی کتب اور منبر ومحراب الگ ہیں۔
مسجدِ اقصیٰ کا وہ ماحول جو برکت اور پاکیزگی کی الوہی شہادت سے سرفراز ہے آج فلسطینیوں کا مقتل بن چکا ہے لیکن اسلامی دنیا کے ہر کونے سے ہلکی سی مذمتی منمناہٹ تو سنائی دیتی ہے، طیاروں کی گھن گرج اور ٹینکوں کی دھمک نہیں اگرچہ یہ ہتھیار بھی ہمارے اپنے تیار کردہ نہیں ہے۔ گویا ملتِ اسلامیہ کے پاس موجود سامانِ حرب صرف عالمِ کفر کی اسلحہ ساز فیکٹریاں چلانے یا باالفاظ دیگر ان کی معیشت کو تقویت دینے کا اک بہانہ ہے۔
حمیت نام ہے جس کا گئی "مسلم" کے گھر سے
اسلامی تعاون تنظیم (OIC)کے سیکریٹری جنرل "عالمی فریقوں" سے "جنگ بندی" کا مطالبہ کرنے کے لئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل، سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اور یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کے متعلق عہدیداران کو خط لکھتے ہیں۔ گویا ایک تو یہ تنظیم خود کو اور مسلمانانِ عالم کو اس مسئلہ میں لاچار ظاہر کرتے ہوئے اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینا چاہ رہی ہے جس کے سبب مرض یہاں تک پہنچا ہے۔ تقدیر کے قاضی کا فتوےٰتو اٹل ہے لیکن جرمِ ضعیفی کی سزا کاٹتی یہ امت اپنی مرگِ مفاجات کے باوصف خود فریبی کی روش جاری رکھے ہوئے ہے۔
دوسرا اس تنظیم نے غزہ کی پٹی میں محصور لاچار فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم کو جنگ کہہ کر اسرائیل اور اس کے پشتیبان امریکہ کے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے حالانکہ یہ جنگ نہیں فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ ادھر ایک عرب ملک کے وزیر خارجہ فرماتے ہیں کہ دنیا کو فلسطین کا مسئلہ حل کرنا ہوگا اور عرب رہنما بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ نجانے موصوف کونسی دنیا میں رہتے ہیں اور کس دنیا سے مسئلۂ فلسطین حل کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
فلسطینیوں کا بہتا خون "عرب رہنماؤں" کی آنکھوں میں لالی تو نہیں لا سکا اب وہ اس سے اپنی فصاحت و بلاغت کا گلزار سینچ کر "بات چیت" کا ماحول گرمانا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں اب عرب عوام بالخصوص اہلِ مصر کی آنکھوں میں اس خون کا اثر نظر آنا شروع ہوگیا ہے اسی لئے وہ امریکی اوریورپی عہدیداران سے ملاقاتیں کر رہے ہیں کہ کسی طرح اسرائیل کو جارحیت روکنے پر قائل کیا جا سکے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی کا یہ سارا منظر نامہ شاید مظلوموں کے لئے ایک نئی اور روشن صبح کی نویدبن جائے کیونکہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ پنجابی محاورہ ہے " اَت خدا دا وَیر" مطلب ظلم اور فساد پھیلانے والا درحقیقت اللہ کی دشمنی مول لیتا ہے۔ اس طرح کی "اَت" انسانی تاریخ میں پہلے بھی کئی دفعہ مچائی گئی اور پھر ظالموں کا انجام انسانیت کے لئے عبرت بن گیا۔ تقریباََ 3000 سال قبل مصر میں فراعین نے اپنے زیرِتسلط ایک لاچار اور بےبس قوم کی نسل کشی کرنے کے لئے ان کے نومولود لڑکوں کو قتل کرنے جیسا ہتھکنڈہ اپنایا۔ پھر ان مظلومین کو اللہ رب العزت نے جس طرح اس ظلم سے نجات دی وہ ایک معجزہ اور ظالموں کا انجام عبرت کی تاریخ بن گیا۔
آج کا منظر نامہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ عالمی اداروں کی خبروں کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے گذشتہ 30 دنوں میں اب تک 4000 سے زائد فلسطینی بچے شہید ہو چکے ہیں اور اوسطاََ ہر 10 منٹ میں ایک بچہ شہید ہو رہا ہے۔ گماں ہوتا ہے کہ شاید اسرائیلی جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے دانستہ طور پر فلسطینی بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ماضی بعید کی فرعونی نسل کش مہم کے فریقین کے انجام سے اسرائیلی اور فلسطینی دونوں بخوبی آگاہ ہیں۔ اول الذکر تب مظلوم تھا تو مؤخر الذکر اب۔
آج کے مظلوم کے لئے اپنوں کی بے اعتنائی اور غیروں کی چیرہ دستی سے بھرے اس بے چارگی کے ماحول میں یہ یاد امید اور دلاسے کا سبب ہونی چاہیئے کہ تب دستِ قضا ہی مظلوم کے لئےذریعۂ نجات بنا تھا، یقیناً اب بھی بنے گا۔ تب کا مظلوم اور اب کا ظالم اسرائیلی اگر ظالم فرعون کے انجام سے عبرت حاصل نہیں کر سکا اور دیوارِ گریہ پر صدیوں سے بہائے گئے اس کے آنسو بھی اس کے دل کی شقاوت کو ختم نہیں کر سکے تو پھر یقیناً اس کا انجام بھی وہی ہوگا جو فرعون جیسے ہر ظالم کا مقدر ہے۔
حذَر اے چِیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
فلسطینیوں پر ظلم کرنے والے صیہونی اپنے پشت پناہوں سمیت اسی عبرت گاہ میں جگہ پائیں گے جو ظالموں کا ٹھکانا ہے۔ ان پر صدیوں سے مسلط ذلت و مسکنت میں جو عارضی وقفہ آیا ہے وہ انشاءاللہ زیادہ طویل نہیں ہوگا۔ فلسطینی یقیناً عجائب گھروں کو نہیں بلکہ تاریخِ حریت کو زینت بخشیں گے۔