Imran Khan Aur Iski Soch
عمران خان اور اسکی سوچ
ہم بچپن میں اکثر آسمان تک توڑی سے لدی ہوئی بیل گاڑی کو دیکھتے اور حیران ہوتے کہ اتنی اونچائی تک اسے کیسے لادا گیا ہوگا؟ پھر اس کے علاوہ ہمارا تعجب اور بھی بڑھ جاتا جب بیل گاڑی کے نیچے ایک لالٹین کے ساتھ ایک کتا بھی ہوتا اور کتا جب تک بیل گاڑی کہیں جا کر رک نہ جاتی بیل گاڑی کے نیچے ہی چلتا رہتا۔ بیل گاڑی کے نیچے لالٹین کی موجودگی تو سمجھ میں آ رہی تھی مگر کتے کی موجودگی نے ہمیں حیرت میں ڈال رکھا تھا۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جب ہمیں دنیا میں موجود معاشرے میں رنگ رنگ کے لوگوں سے واسطہ پڑا اور ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اور انکے مختلف رویوں اور سوچ کے حامل افراد سے میل ملاپ کیا تو پتہ چلا کہ اس دنیا میں بسنے والا ہر شخص ہی اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ اسکے بغیر یہ دنیا ادھوری ہے اور ہر کوئی کام جو اس دنیا میں وقوع پذیر ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے اسی کے مرہون منت ہے۔
مزید یہ کہ دنیا میں حل پذیر تمام معاملات خواہ اس کا تعلق کسی بھی نوعیت کے کاموں سے ہو اس کام کو انجام تک پہچانے کی تمام تر ذمہ داری اور اس کام کا سارا وزن اسی اکیلے ایک شخص کے کندھوں پر پڑا ہوا ہے بالکل اسی طرح جیسے ہم بچپن میں بیل گاڑی کے نیچے کتے کو دیکھتے تھے کہ وہ کتا بھی اسی غرور اور تکبر کے ساتھ بیل گاڑی کے نیچے اپنا سر فخر سے بلند کر کے اسی سوچ کے ساتھ چل رہا ہوتا تھا کہ جیسے اس بیل گاڑی کا سارا وزن اسی نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے اور اگر وہ بیل گاڑی کے نیچے سے نکل جائے تو بیل گاڑی پر لدا ہوا سارا مال دھڑام سے نیچے گر جائے گا اور مالک کو بہت نقصان ہوگا۔
کیا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بھی اسی سوچ سے تعلق رکھتے ہیں کہ گزشتہ چار سال سے اس ملک کا بوجھ جو وہ اٹھائے ہوئے تھے یہ بوجھ اب کوئی اور اٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتا لہٰذا اس ملک کو بہتر طریقہ سے چلانے کی قابلیت اور اہلیت جو ان کے پاس ہے وہ قابلیت کسی اور میں نہیں ہو سکتی۔ جتنا وہ اور اس کی جماعت مخلص رہ کر سیاسی میدان میں ملک کو ترقی دے سکتے ہیں کوئی اور نہیں دے سکتا۔
وہ کیوں یہ سمجھتا ہے کہ جس طرح وہ کتا اپنے مالک کے ساتھ وفادار ہے کوئی اور وفادار نہیں ہو سکتا؟ میں نے اپنی زندگی میں ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بےنظیر بھٹو کے اقتدار کے ساتھ ساتھ جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے ادوار بھی دیکھے، ان سیاسی جماعتوں کی سیاسی دشمنی بھی دیکھی اور وقت کے بدلتے حالات کے پیش نظر ملکی مفاد کی خاطر ان کے درمیان سیاسی مفاہمت بھی دیکھی۔
الیکشن کی کمپینز میں ایک دوسرے کے خلاف سخت سے سخت زبان بھی استعمال ہوتی دیکھی اور ملکی سیاسی بدلتی صورتحال کے پیش نظر بعض حلقوں میں مفاہمت کے ساتھ مشترکہ نمائندہ بھی کھڑا دیکھا مگر موجودہ سیاسی میدان میں عمران خان نے سیاست کے اندر جس طرح اپنی نوجوان نسل کی سیاسی تربیت اور ان کی ذہن سازی کی اس کی مثال گزشتہ کسی دہائی میں آپ کو نہیں ملے گی۔
کسی بھی سیاسی جماعت کا لیڈر اپنی جماعت کا رول ماڈل ہوتا ہے جسے دیکھ کر اس کی سیاسی جماعت کے ساتھ وابسطہ اس کے نوجوان ورکرز یا فالوورز خود کو ویسا ہی بننے کی کوشش کرتے ہیں مگر عمران خان نے اپنی یوتھ کو اخلاقیات کی بجائے انہیں بدتمیزی، بدتہذیبی کے ساتھ اپنے سے بڑوں کے ساتھ ناشائستگی کے ساتھ پیش آنے اور زبان سے انتہائی غیر مہذب الفاظوں کے ساتھ پیش آنے کی تربیت دی۔
عمران نے اپنی سیاست کے ساتھ ایک نئی سیاسی روایت کو متعارف کروایا جس میں ایک ہی گھر میں بسنے والے مختلف سیاسی نظریات رکھنے والوں کو آپس میں لڑوا دیا جوائنٹ فیملی سسٹم کے ماحول کو تباہ کر دیا۔ نئی نسل کے لوگوں نے جہاں اپنے والدین کی عزت اور احترام کو لازم پکڑنا تھا وہاں انہوں نے اپنے لیڈر کی عزت و احترام کو اپنے اوپر فرض کیا اس کی ایک آواز پر وہ اس حد تک جانے کو تیار ہو جائیں جہاں تک جانے کی ان کے والدین بھی اجازت نہ دیں۔
یہ تو اللہ کا خاص کرم اور اسکی رحمت ہے کہ اس ذات نے ہمارے دین کو ہم پر مکمل کر دیا اور ہمارے پیارے نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ پر ختم نبوت مکمل کی وگرنہ عمران خان کے ساتھ جڑے ہوئے کچے ذہنوں کی مالک نوجوان نسل کسی دن (نعوذباللہ) عمران کو اپنا پیغمبر اور اس کی جماعت کے منشور و دستور کو ایک الہامی کتاب تصور کرتے ہوئے ایک نئے دین کی بنیاد نہ رکھ دیں کیونکہ جو شخص رمضان کے بابرکت ماہ میں عمرہ کی سعادت سے بڑھ کر اس کے اپنے جلسہ میں لوگوں کی موجودگی کو بارگاہ الہٰی میں زیادہ معتبر سمجھتا ہے وہاں وہ فرض نماز کو اپنے لانگ مارچ اور دھرنوں کو کامیاب بنانے کے لیئے لوگوں کی موجودگی کو فرض نماز سے بھی بڑھ کر درجہ دے سکتا ہے۔
اللہ کریم ہماری قوم کو ایسے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ملک پاکستان اور اسکی مسلح افواج کی یکجہتی اور سالمیت کو نظر بد سے بچائے۔ یہ سیاستدان سمجھ جائیں کہ اگر قوم ہی نہ رہی تو ان کی سیاست کس کام کی اور اگر فوج میں یکجہتی اور اتفاق نہ رہا تو دشمن ہماری صفوں میں موجود کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اس ملک کو مزید کمزور کر سکتا ہے جو ہم میں سے کوئی باشعور شخص ایسا نہیں چاہے گا۔ لہٰذا آئیں اور اپنے ملک میں سیاسی بدامنی اور اخلاقی خلاء کو حکمت اور دانائی کے ساتھ پر کریں اور اپنے ملک کی سرحدوں پر موجود افواج پاکستان کے نوجوانوں کے حوصلوں کو بلند کریں۔