Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Syed Zada

Selab Kahani, Syed Zada

سیلاب کہانی، سید زادہ

"اماں۔ اب کیا ہو گا؟" ماروی نے سسکتے ہوئے اپنی ماں سے پوچھا۔ صفورا نے اپنی جوان سال بیٹی ماروی کے کملائے ہوئے چہرے کی طرف حسرت سے دیکھا۔ تین دن بعد ماروی کی شادی ہونی تھی۔ یہ بال جو گرد سے اٹے ہیں ان میں افشاں سجنی تھی، کیچڑ سے لتھڑے لباس کی جگہ سہاگ کا سرخ جوڑا اس کے بدن پر سجنا تھا، مٹی سے آلودہ ہاتھوں پر مہندی لگنی تھی۔ سوکھے تنکوں اور پتوں کی جگہ اسے زیور پہننا تھا۔ "آہ، میری بچی کے جہیز کے جوڑے۔ کتنے ارمان میں نے ہر ٹانکے میں پروئے تھے، سب بہہ گئے۔ "

سیلاب کا پانی۔ صرف ساز و سامان ہی نہیں ساری امیدیں، ساری تمنائیں بہا کر لے گیا تھا۔ صفورا کا دل کٹ کٹ کر آنسوؤں کے ساتھ بہنے لگا۔ اسے روتا دیکھ کر ماروی اور بھی شدت سے رونے لگی۔ علی بخش نے انھیں تسلی دینا چاہی مگر اکلوتی بیٹی کے آنسوؤں نے اس کا گلا بھی جکڑ لیا وہ اپنی آنسو صاف کرتا وہاں سے ہٹ گیا۔ اس کی ساری فصل، ڈھور ڈنگر سب بہہ گئے تھے اور اب گوٹھ سے دور یہاں اس سرکاری اسپتال کی بلڈنگ کے سامنے بیٹھا تھا۔

سرکار نے یہ اسپتال اس علاقے کے لوگوں کے لئے بنایا تھا مگر یہ کبھی اسپتال بن ہی نہ سکا۔ نہ یہاں کبھی کوئی ڈاکٹر آیا نہ نرس اور نہ ہی کوئی مریض۔ بلکہ یہ تو علاقے کے با اثر شخصیت سائیں سرکار کی ذاتی اوطاق بن گیا تھا۔ اسی وقت چوکیدار نے بلڈنگ کا گیٹ کھول دیا۔ صفورا اور علی بخش اندر کی طرف بھاگے ماروی بھی آنکھیں صاف کرتی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔ سب لوگ بلڈنگ کے میدان میں جمع ہو گئے۔

اسی وقت مخدوم سرکار سائیں اذلان شاہ کی جیپ بلڈنگ میں داخل ہوئی اور سب اس طرف دیکھنے لگے۔ مگر ماروی کی توجہ کسی اور طرف تھی۔ لوگ ہاتھ باندھ کر جیپ کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔ انھیں لگا جیسے اب ان کے درد کا درماں ہو جائے گا۔ مخدوم سائیں سرکار سید زادے ہیں ان کو تو دیکھ لینا بھی بڑی سعادت ہے۔ ماروی کو ذرا دور پانی کا ناند نظر آ گیا تھا وہ جسم پر چپکی مٹی سے تنگ آ چکی تھی یوں بھی وہ صاف ستھری رہنے کی عادی تھی۔

اپنا بہت خیال رکھتی تھی اور اب کہاں دو دن سے منہ دھونا بھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ صاف پانی دیکھ کر وہ خود کو روک نہ پائی اور ناند میں پڑا ڈبہ پانی سے بھر کر اپنے سر پر ڈال لیا۔ مٹی اس کے چہرے اور گردن سے بہہ کر قدموں میں جمع ہونے لگی۔ اس کا خوبصورت چہرہ شفاف نظر آنے لگا۔ لباس گیلا ہو کر بدن کے خدوخال سے چپک گیا۔ اسی لمحے گاڑی سے اترتے مخدوم اذلان شاہ کی نظر ماروی پر پڑی۔ سیاہ شیشوں کا چشمہ بھی اس کی جلد کی چمک چھپا نہ پایا۔ لوگ انھیں اترتا دیکھ کر گردنیں نیچے کئے پیچھے ہٹنے لگے۔

"سائیں سرکار، ہم لٹ گئے۔ ہم برباد ہو گئے۔ " لوگ اپنے دکھ بیان کرنے لگے۔ "سرکار سب مال مویشی، فصل سیلاب میں بہہ گئی۔ " مگر اذلان شاہ کی نظریں تو کہیں اور تھیں۔ جمن ان کا خاص بندہ تھا۔ ان کی نگاہوں کا مرکز پہچان چکا تھا۔ ساری زندگی ان کی خدمت کی تھی اور ان کا ہر انداز پہچانتا تھا۔ اذلان شاہ نے ایک نظر جمن کی طرف دیکھا اور اگلے ہی لمحے جمن نے سینے پر ہاتھ رکھ کر حکم موصول ہونے کا اشارہ دے دیا۔

"بابا فکر نہ کرو۔ ہم لگے ہیں آپ لوگوں کے لئے۔ ابھی یہاں رہو۔ یہاں کھانا، کپڑے سب ملے گا۔ پانی اترے گا تو گھر بھی بنوا دیں گے۔ " مخدوم سائیں سرکار کے الفاظ ٹوٹے دلوں کا مرہم بن گیا۔ مرجھائے چہرے کھل اٹھے۔ اذلان شاہ بلڈنگ کے کاریڈور سے گزرتے چلے گئے۔ لوہے کی جالی کے پار ان کی نگاہیں اب بھی ماروی پر ہی تھیں اور اس سب سے بے خبر پانی اپنے چہرے پر بہا رہی تھی۔

٭٭٭

جمن نے سب کو میدان میں جمع ہونے کا اشارہ کیا۔ ایک پڑھے لکھے لڑکے کو مردوں کے نام لکھنے اور ماروی کو عورتوں کے نام لکھنے کا کام سونپا۔ جلد ہی دونوں نے ناموں کی فہرست جمن کو دے دی۔ جمن نے پہلے لڑکے کو چلتا کیا پھر ماروی کی فہرست دیکھتے ہوئے بولا "واہ چھوری تیری لکھائی تو بڑی اچھی ہے۔ کیا نام ہے تیرا؟ علی بخش کی بیٹی ہے نہ تو؟"

ماروی اپنی لکھائی کی تعریف سن کر خوش ہو اٹھی۔

"جی سائیں میں علی بخش کی بیٹی ہوں۔ ماروی۔ اس سال دسویں پاس کی ہے میں نے۔ "

جمن مصنوعی حیرت سے بولا۔

"وا ڑے تُو تو بڑی پڑھی لکھی ہے۔ سنا ہے تیری شادی ہونے والی تھی؟"

ماروی کی خوشی پر اوس پڑ گئی۔

"فکر نہ کر، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ "

جمن نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی اور فہرست لے کر مخدوم سائیں سرکار کے دفتر کی طرف چل پڑا۔ ماروی اس کو کوریڈور میں جاتا ہوا دیکھتی رہی پھر ماں کے پاس آ بیٹھی جو چاول کی دیگ کے انتظار میں بھوک سے ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔ جب مجمع کی بھوک حد سے بڑھی تو کچھ احتجاجی آ وازیں بند ہونے لگیں۔ جمن پھر سے نمودار ہوا اور غصہ سے بولا

"کیا بات ہے؟ کیوں شور ڈالا ہوا ہے؟"

"سائیں بھوک سے برا حال ہے۔ کچھ بچوں اور بوڑھوں کا ہی خیال کرو۔ "

لوگوں نے التجا کی۔

جمن نے سب ڈپٹ دیا "کوئی جادو ہے کیا؟ ٹائم لگتا ہے۔ سب پانی بھرا ہے چاروں طرف۔ بھوک بھوک چلا رہے ہو۔ کچھ پتہ بھی ہے کتنی مشکل سے آئے گا کھانا یہاں تک؟ یہ سیلاب تم لوگوں کے گناہوں کی سزا ہے۔ " اس نے غضب ناک نظروں سے غریب مسکین لوگوں کو دیکھا جو اس کی بات سن کر سراسیما ہو گئے تھے۔ اچانک رفیق اٹھا اور بولا "مگر وہ ٹی وی والے تو کہہ رہے تھے کہ مخدوم سائیں سرکار کی زمینیں بچانے کے لئے بند توڑا گیا۔ اس لئے سیلاب آیا۔ "

مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ دور کھڑے رفیق کے باپ کے قدموں تلے زمین سرک گئی۔ جمن کا قہر و غضب اور بڑھ گیا "دیکھا۔ دیکھا۔ تم لوگوں نے؟ اس لئے اللہ سائیں نے سیلاب بھیجا۔ جب تم لوگ سید زادوں پر سوال اٹھاؤ گے اللہ کا عذاب تو آئے گا نا پھر۔ ارے ان سرکاروں کی وجہ سے ہی تم پر بارش برستی ہے۔ تمہاری فصلیں اگتی ہیں۔ بڑی سرکار پر انگلی اٹھانے والے کو اللہ سائیں مٹا کر رکھ دیں گے۔ "

رفیق کا باپ گرتا پڑتا آگے بڑھا۔

"رحم سائیں رحم۔ بچہ ہے۔ نادان ہے۔ " جمن نے نفرت سے رفیق کی طرف دیکھا اور کہا "نادان ہے تو عقل دو اسے۔ سید زادوں کا ادب سکھاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے تم سب پر بھی اللہ کا عذاب اترے۔ " مجمع کی ساری آنکھیں شرر بار ہو کر رفیق کو گھورنے لگیں۔ وہ گھبرا کر جلدی سے بیٹھ گیا ورنہ اس کے دل میں کئی سوال تھے۔ وہ جمن سے پوچھنا چاہتا تھا کہ باہر کے ملکوں کے رہنے والے تو کسی بڑی کیا چھوٹی سرکار کو بھی نہیں مانتے۔

پھر ان کے ملک میں سیلاب کیوں نہیں آتے؟

عذاب کیوں نہیں اترتے؟

قحط کیوں نہیں پڑتے؟

وہاں اگر کوئی قدرتی آفات یا کوئی وبا آ بھی جائے تو ایسا قہر کیوں نہیں بر ساتیں؟

مگر سب سوال رفیق کے سینے میں ہی دبے رہ گئے اور جمن لمبے لمبے ڈگ بھرتا واپس مخدوم سائیں سرکار کے دفتر میں غائب ہو گیا۔ کچھ دیر بعد چاولوں کی دیگ بھی آ گئی۔ سب کچھ بھول کر لوگ چاولوں پر ٹوٹ پڑے۔

٭٭٭٭

شام کو جمن پھر فہرست لئے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ماروی کو اشارہ سے بلایا اور کہا

"چھوری، تیرا کام تو مخدوم سائیں سرکار کو بھی بہت پسند آیا ہے۔ "

ماروی یہ سن کر خوش ہو گئی۔

"اچھا بات سن۔ "

جمن نے راز داری سے پاس آ کر کہا

"آج رات امداد کے پیسے آ جائیں گے۔ میں نے سائیں سرکار سے بات کر لی ہے۔ میں نے انھیں تیری شادی کا بتایا۔ وہ تجھے ڈبل پیسے دینے کے لئے تیار ہیں۔ تیرے گھر والوں کو الگ اور تیری شادی کے لئے الگ۔ "

"سچ؟"

خوشی سے ماروی کی آنکھیں جھلملا اٹھیں۔

"ہاں ہاں بالکل سچ۔ مگر ابھی یہ بات کسی کو نہ بتانا۔ اپنے ماں پیو کو بھی نہیں۔ آج رات سب سے پہلے تجھے پیسے دلوادوں گا۔ ان سب کو صبح دئیے جائیں گے۔ اگر ابھی انھیں پتہ چلا تو یہ لوگ ہنگامہ کھڑا کر دیں گے۔ اسلئے ابھی کسی کو نہ بتانا۔ "

ماروی خوب اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔

جمن نے اِدھر اَدھر دیکھا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا

"بس تو رات کو دروازے کے پاس ہو کر لیٹنا۔ میں یہ لوہے کی جالی بجاؤں گا۔ خاموشی سے اٹھ کر آ جانا۔ دفتر سے اپنے پیسے لینا اور خاموشی سے واپس آ جانا۔ کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ ٹھیک ہے؟"

جمن نے پورا منصوبہ اس کے گوش گزار کروا دیا۔

ماروی نے سعادت مندی سے سرہلا دیا۔

وہ شادی کے لئے پیسوں کا انتظام ہو جانے پر بہت خوش تھی۔

٭٭٭

پھر ایسا ہی ہوا۔ لوہے کی جالی کی آواز سن کر ماروی خاموشی سے اٹھی اور دفتر کی طرف چل دی۔ جمن دروازے پر موجود تھا۔ وہ اسے لئے دفتر میں داخل ہو گیا اور ایک بند دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے

"جا اندر چلی جا۔ سائیں سرکار اندر ہیں۔ "

ماروی ایک لمحے کو رکی مگر شادی کے خیال نے اس کے رکے ہوئے قدموں کو آگے بڑھنے پر مجبور کر دیا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی اور جمن نے نہایت خاموشی سے دروازے کے باہر تالہ ڈال دیا اور چابی انگلی میں گھماتا باہر نکل گیا۔

کمرے کے اندر آ کر ماروی کو لگا وہ کسی اور ہی دنیا میں آ گئی ہے۔

یہ دفتر تو نہیں ہے؟

وہ حیران سی چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔

دبیز قالین۔

جہازی سائز کا بیڈ۔

ریشمین پردے۔

ٹھنڈی ہوا برساتا اے سی۔

اور دروازے کے پاس صوفے پر براجمان مخدوم سائیں سرکار۔ اس کے آگے میز پر شراب اور جام سجے تھے۔ نشے کی زیادتی سے اس کا چہرہ تپ رہا تھا۔ اس کی بے باک نگاہیں ماروی کے جسم پر تھی۔ ماروی کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ مگر دیر ہو چکی تھی۔

"سائیں۔ سائیں سرکار۔ مجھے جانے دو۔ تمہیں نبی پاک ﷺ کا واسطہ۔ اماں۔ ابا۔ "

مگر اس کی چیخیں ساؤنڈ پروف کمرے سے باہر نہ نکل سکیں۔

٭٭٭٭

"سائیں ہماری بیٹی نہیں مل رہی۔ " صفورا اور علی بخش کا رو رو کر برا حال تھا۔

وہ سائیں سرکار کے قدموں میں گرے ہوئے تھے۔ باقی لوگ بھی ان کے پیچھے سوگوار کھڑےتھے۔

"مل جائے گی بابا۔ یہیں کہیں ہو گی۔ "

مخدوم سائیں سرکار نے بیزاری سے کہا۔ انھیں گرمی لگ رہی تھی۔ وہ جلد از جلد اپنی اے سی جیپ میں بیٹھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا آگے بڑھ گئے اور جمن نے ان روتے کرلاتے ماں باپ کی طرف دیکھ کر کہا

"میں نے کہا تھا نا۔ سید زادوں پر سوال اٹھاؤ گے تو عذاب آئے گا۔ اب بھگتو۔ "

لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

"بابا معافی مانگو اپنے گناہوں کی۔ اللہ سائیں سے دعا کرو کہ سید زادوں کے صدقے اس مصیبت کی گھڑی کو ٹال دے۔ "

لوگ ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ اور ماروی کی بے گور و کفن لاش سیلاب کے تند ریلوں کے ساتھ نئی سمتوں کی طرف بہتی چلی گئی۔

٭٭٭

Check Also

Adh Adhoore Log

By Muhammad Ali Ahmar