Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Sapno Ka Mahal

Selab Kahani, Sapno Ka Mahal

سیلاب کہانی: سپنوں کا محل

پچھلی رات جاوید کی زندگی کی سب سے خوش کن رات تھی۔ وہ اپنی بیوی عروج سے بولا "عروج! آج میں سرخ رو ہو گیا۔۔ میں نے اپنے بچوں کے لئے ایک چھت بنا لی۔۔ اب انھیں میری طرح زمانے کے سرد و گرم نہیں سہنے پڑیں گے۔۔ ان کے سر پر اپنی چھت ہوگی۔ "

عروج بھی کم خوش نہ تھی بولی "سچ کہا آپ نے۔۔ یہ ہماری طرح در بدر نہیں بھٹکیں گے۔۔ کرائے کے گھروں کی ذلت نہیں اٹھائیں گے۔ "

اور آج کی صبح جاوید کی زندگی کی سب سے دکھی صبح تھی۔ اس کے پاس الفاظ نہیں تھے۔ عروج کی زبان بھی مفلوج ہو چکی تھی۔

پچھلا سارا دن جاویدخوشی سے سرشار گھومتا رہا اور اب آج کے دن جاویدکی تکلیف دہ سوچیں ختم نہیں ہو رہی تھیں۔

٭٭٭

یہ گھر اس کی دن رات کی محنت کا نتیجہ تھا۔ ساری زندگی وہ بس ایک ہی خواہش دل میں پالتا رہا۔ اپنا گھرہو

اپنا ذاتی گھرہو، وہ اکثر اپنی بیوی عروج کو بتاتا تھا "میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں اپنا ذاتی گھر بنا لوں۔۔ بچپن سے جوانی تک ساری زندگی کرائے کے گھر میں گزر گئی۔۔ ہر چار چھ سال بعد گھر بدل جاتا تھا۔۔ یار دوست۔۔ سب بدل جاتے۔۔ نئے محلے۔۔ نئے لوگنئے سرے سے گھر کی سیٹنگ۔۔

کبھی کبھی تو سال دو سال بعد ہی جانا پڑتا۔۔ سامان اٹھا اٹھا کر میرے ماں باپ کے کندھے جھک گئے۔ جب بھی گھر شفٹ ہوتا امی روتی، پاپا تھک کر چور ہو جاتے"۔

جاوید آج بھی ان دنوں کو یاد کرکے دکھی ہو جاتا تھا۔ عروج اس کو حوصلہ دیتی اور کہتی۔ اللہ ہماری ضرور سنے گا جاوید۔۔ "ہم اپنا گھر ضرور بنائیں گے۔۔ انشااللہ"۔

دونوں ہی اس مقصد کو اپنی زندگی کا حاصل بنا چکے تھے۔ مگر اس مہنگائی کے دور میں دو بچوں کے ساتھ اتنی بچت کرنا کہاں ممکن تھا! مگر وہ تن پیٹ کاٹ کراپنے گھر کے لئے پائی پائی جوڑ رہے تھے۔

جاوید ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازم تھا۔ عروج پرائمری اسکول میں ٹیچر تھی۔ زندگی مشکل تھی مگر حوصلے بلند تھے۔

٭٭٭

"جاوید۔۔ میری مانو۔۔ دیر نہ کرو۔۔ اس سے اچھا موقعہ نہیں ملے گا۔۔ " اسٹیٹ ایجنٹ وقاض نے جاوید کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

"اچھا میں سوچ کربتاتا ہوں۔۔ "جاوید سوچوں میں غلطاں و پیچاں گھر پہنچا۔

"کیا بات ہے؟ اتنے چپ چپ کیوں ہو؟"عروج نے اسکی خاموشی محسوس کرلی۔

"آج وقاص آیا تھا۔۔ وہ ہی اسٹیٹ ایجنٹ!

"کیاکہہ رہا تھا؟" عروج نے پوچھا۔

"وہ بتا رہا تھا کوئی نئی اسکیم شروع ہوئی ہے۔۔ نیو سٹی کے نام سے، بہت سستے پلاٹ مل رہے ہیں وہاں"۔

عروج کو بھی یاد آ گیا "ہاں اس اسکیم کا ٹی وی پر بھی اشتہار آتا ہے۔۔ دریا کے قریب ہے۔۔ سنا ہے کافی سستے پلاٹ مل رہے ہیں، میرے اسکول کی چند ٹیچرز بھی اس بارے میں بات کر رہی تھیں۔۔ "

جاوید بولا "ہاں وقاص بھی یہ ہی بتا رہا تھا کہ پلاٹ کافی سستے ہیں۔۔ میں سوچ رہا ہوں، وہاں پلاٹ لے لیتے ہیں۔۔ جگہ اپنی ہو جائےگی، گھر بنانے کے لئے ہاؤس بلڈنگ سے قرضہ لے لیں گے۔۔ "۔

عروج کا ذہن اب بھی کہیں اور تھا "مگر میں نے سنا ہے کہ وہ دریا کے قریب ہے۔۔ کچے کی زمین ہے۔۔ وہاں سیلاب کا خطرہ ہمیشہ رہے گا۔۔ " جاوید سوچ میں پڑ گیا۔

"اچھا۔۔ میں وقاص سے پوچھوں گا۔۔ "

٭٭٭

وقاص ایک مو قع پرست اور چرب زبان شخص تھا۔ ایسے لوگ بہت جلد اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ وقاص بھی جلد ہی نسیم شاہ بلڈر کا خاص آدمی بن گیا۔ نسیم شاہ شہر میں نئی آبادیاں آباد کرنے کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا تھا۔

شہر میں رشوت کا بازار گرم تھا۔ نسیم شاہ بھی سر کاری زمین اونے پونے خرید لیتا اور کچھ عرصے بعد اس پر اسکیم کا اعلان کر دیتا۔ وقاص اس کا دست راست تھا۔ ایسی پبلسٹی کرتا کہ لوگ جوق در جوق اسکیم دیکھنے آتے۔

وقاض نے جاویدکو شیشے میں اتار لیا۔ وہ ان دونوں کو لے کرپلاٹ دکھانے لے گیا۔

"دیکھیں بھابھی۔۔ آپ کو یہاں سے دور دور تک کہیں دریا نظر آ رہا ہے؟ عروج نے گردن گھما کر چاروں طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔

اب وقاص بولا "دریا یہاں آس پاس نہیں ہے۔۔ وہ تو یہاں سے بہت دور بہہ رہا تھا۔۔ یہ علاقہ تو دریا کے بندسے بھی کافی پیچھے ہے۔۔ سیلاب کا کوئی خطرہ ہے ہی نہیں۔۔ آپ خود سوچیں اگر ایسا ہوتا تو گورنمنٹ یہ جگہ ہمیں کیوں دیتی؟ دن رات ٹی پر ہمارے ایڈ چلتے ہیں۔۔ اگر یہ غیر قانونی ہوتا تو ہم ٹی وہ پر ایڈ کیوں لگواتے؟"

عروج اور جاوید دونوں نوکری پیشہ تھے۔ انھیں زمین، دریا، بند وغیرہ کی اتنی معلومات نہ تھی۔ علاوہ مرکزی شہر سے تقریباً ملحق ہی تھا۔ شام کا وقت تھا اور دریا کی طرف سے آنے والی ٹھنڈی ہوائیں طبعیت پر اچھا اثر ڈال رہی تھیں۔

"پہلے دس پلاٹوں پر مالک نے خصوصی رعایت دی ہے۔۔ چھ یا سات پلاٹ تو بک ہو چکے ہیں، ایک پلاٹ تو میں نےاپنے بھائی کو ہی دلوایا ہے۔۔ اب یہ جاوید۔۔ بھی تومیرا بھائی ہی ہے۔۔ میں تو یہ ہی کہوں گا دیر نہ کرو۔۔ اب آگے آپ کی مرضی ہے۔۔ "

عروج اور جاوید دونوں ہی قائل ہو گئے۔ انھوں نے ساری جمع پونجی لگا کر پلاٹ خرید ڈالا۔

عروج بار بار فائل کھول کر دیکھتی رہی۔

"جاوید مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا! ہم زمین کے مالک ہو گئے۔۔ "

جاوید بھی آج بہت خوش تھا بولا "ہاں عروج۔۔ ہم زمین کے مالک ہو گئے۔۔ طویل جد وجہد کے بعد اللہ نے ہماری بھی سن لی۔۔ "دونوں مسکرا رہے تھے۔

آنکھوں میں جگنو جھلملا رہے تھے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو تھا۔

٭٭٭

جلد ہی نیوسٹی اسکیم کے تقریباً سارے پلاٹ بک ہوگئے۔ جاوید جیسے سیدھے سادے لوگ اپنے گھر میں چاہ میں رہتے ہیں۔ ان کی اس چاہ کا فائدہ اٹھایا گیا۔ وقاص کی وجہ سے نسیم شاہ کو کروڑوں کا فائدہ ہوا اور خود وقاص لاکھوں کما گیا۔

چند ہی ماہ میں وہاں تعمیراتی کام شروع ہو گیا۔ جاوید اکثر وہاں جاتا تھا ایک دن گھر آ کر بولا "عروج اسکیم میں تیزی سے گھر بننا شروع ہو چکے ہیں۔۔ جلد ہی وہ جگہ آباد ہو جائے گی۔

میں سوچ رہا ہوں ہاؤس بلڈنگ سے قرض لے لیا جائے۔۔ مگر وہ ضمانت کے طور پر پراپرٹی کے کاغذات رکھواتے ہیں۔۔ میں اس بات سے ڈر رہا ہوں۔۔ یہ پلاٹ میری زندگی بھر کی کمائی ہے۔۔ "عروج بھی سوچ میں پڑ گئی۔

"ہاں یہ تو ہے۔۔ مگر ہمیں قرض تو لینا ہی پڑے گا۔۔ اور جو بھی قرض دے گا وہ ضمات مانگے گا۔۔ "

جاوید غریب سا آدمی تھا۔ اس کے حلقہ احباب میں کوئی ایسا نہ تھا جو اس کو اتنا بڑا قرضہ فراہم کرتا۔ چارو ناچار اسے پلاٹ کی ضمانت پر ہاؤس بلڈنگ سے قرض لینا پڑا۔۔

عروج کے ایک سال کی تنخواہ بھی ایڈوانس لے لی گئی اور گھر کی تعمیر شروع ہو گئی۔

گھر کیا!خوابوں کا محل تھا، تمناؤں کا مرکز تھا، جاوید اورعروج روز جا کر کام کا جائزہ لیتے۔

"یہ والا کمرہ ہم بیڈ روم بنائیں گے۔۔ "

عروج ایک زیر تعمیر کمرے میں کھڑی تھی۔۔ پھر وہ لپک کر دوسرے کمرے میں پہنچی

"یہ بچوں کا کمرہ ہوگا۔۔ گھر کے ساتھ ساتھ کیاری بنوانا۔۔ وہاں میں پودے لگاؤں گی۔۔ "

عروج زیر تعمیر گھر کی ہر دیوار پر اپنے سپنوں کے شہکار سجاتی۔ بچے ماں کو خوش پا کر چہکنے لگتے۔۔ اورجاوید اس کی باتیں سن کر ہنس دیتا۔

زندگی بھر کی جمع پونجی اور محنت کا ثمر تھا وہ گھر!

٭٭٭

آج دونوں بہت خوش تھے بلکہ عروج نے حلوہ بنا کر سارے محلے میں بانٹا تھا۔ آج گھر کے اوپر والے پورشن کی چھت بھی پڑ گئی تھی۔ رات دیر تک وہ اسی بارے میں بات چیت کرتے رہے۔

"سارا بنیادی کام آج مکمل ہو گیا! اب بس فائنل فنش کا کام شروع ہوگا۔۔ " جاوید نے اسے بتایا۔

"میں سوچ رہی ہوں کہ ہم پہلے اوپر کے پورشن کا کام مکمل کروا لیں۔۔ اور پھر ہم اوپر شفٹ ہو جائیں، اس کرائے سے تو جان چھوٹے۔۔ باقی نیچے کا کام چلتا رہے گا۔۔ جب تک بچے چھوٹے ہیں ہم نیچے کا پورشن کرائے پر دے دیں گے۔۔ قرض آسانی سے اتر جائے گا"

جاوید کو بھی یہ آئیڈیا اچھا لگا۔ دونوں رات دیر تک مستقبل کے منصوبے بناتے رہے، مگر ان کے منصوبے کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔۔ اسی رات سیلاب ان کی ساری خوشیوں پر شب خون مار گیا۔

شدید سیلابی ریلا بند توڑتا ہوا سارے علاقے کو تہس نہس کر گیا۔ صبح سوشل میڈیا سے جاوید کو یہ خبر ملی تھی۔

"نیو سٹی اسکیم ڈوب چکی ہے۔۔ زیر تعمیر مکانات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔۔ لوگوں کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔۔ "

موبائل سے آتی آواز سن کر عروج کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ عروج اور جاوید کو لگا کہ جیسے وہ خود صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ جاوید بائک لے کر اسکیم کی طرف بھاگا۔

ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے کئی لوگوں میں جاوید کا اضافہ بھی ہوگیا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ لوگ سخت پریشانی کے عالم میں تھے۔

"ہم تو لٹ گئے۔۔ برباد ہو گئے۔۔ " ہر زبان پر یہ ہی فریاد تھی۔ ایک نیوز چینل کا رپورٹر نے ایک شخص سے پوچھ رہا تھا، "یہ جگہ کچے کے زمین ہے۔۔ اس پر تعمیر منع ہے۔۔ آپ نے اپنا سرمایہ اس جگہ پر کیوں لگایا؟"

وہ شخص چلا اٹھا "اگر یہ زمین محفوظ نہیں تھی تو ان کواسکیم بنانے اجازت کس نے دی؟ اتنے بڑے پیمانے پر کام ہوتا رہا۔۔ کوئی حکومتی ادارہ کیوں نہ آیا؟ ہماری عمر بھر کی پونچی لٹ گئی۔۔ ہم کس سے فریاد کریں؟ کون ہے وہ افسر جس نے اس اسکیم کی اجازت دی؟"

رپورٹر سوال کا جواب پا کر آگے بڑھ گیا۔ وقاص اور نسم شاہ اپنے محفوظ گھروں میں تھے۔ راشی افسرلاکھوں کما کر خوش تھے۔ حکومتی ادارے امداد سمیٹنے میں مگن تھے۔

اور جاوید اور عروج جیسے کئی لوگ ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ٹھاٹھیں مارتے مٹیلالے پانیوں میں اس سمت دیکھ رہے تھے جہاں کل تک ان کے سپنوں کے محل موجود تھے۔

٭٭٭

Check Also

Ham Yousuf e Zaman Thay Abhi Kal Ki Baat Hai

By Syed Tanzeel Ashfaq