Selab Kahani, Hurmat
سیلاب کہانی: حرمت
"حضور۔۔ سرکار۔۔ وہ ایک ضروری بات گوش گزار کرانی ہے۔۔ "فاروق ہانپتا کانپتا دربار میں پہنچا۔ حاضرین اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔
"کیا ہوا فاروق؟ قریب آؤ۔۔ "
دربار کے مسند اعلیٰ پر برا جمان حضرت ذیشان سرکار نے متانت سے پوچھا اور اسے پاس آنے کا عندیہ دیا۔
فاروق حاضرین کے درمیان سے بچتا بچاتا ان کے قریب پہنچا اور ان کے کان کے بالکل نزدیک جا کر دھیمی سرگوشی میں بولا "سرکار۔۔ کوئی۔۔ میرے منہ میں خاک۔۔ ، کوئی بد بخت مزار اقدس کی چادریں۔۔ چوری کر کے لے گیا۔۔ "
حضرت ذیشان سرکارنے اس کو دیکھا اور کچھ دیر سر جھکا کر بیٹھے رہے۔ پھر اشارے سے اسے رخصت ہونے کا حکم دیا اور محفل وہیں سے شروع کی جہاں تھمی تھی۔ سیلاب کے سبب اس جمعرات چند ہی لوگ پہنچ پائے تھے۔ مگر مزار کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے محفل سجالی گئی تھی۔
٭٭٭٭
نور فاطمہ بڑی دقت کے ساتھ چادریں باندھ رہی تھی۔ اس کی اپنی چادر اور قمیص اڑی جا رہی تھی۔ کبھی آگے کا دامن اڑتا۔۔ تو کبھی پیچھے کا۔۔
وہ خود کو ڈھکنے کی کوشش میں ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔ بڑی مشکل سے اس نے چادریں باندھ کر ایک کمرہ سا بنایا تھا۔
مگر چادریں چھوٹی تھیں۔ مکمل پردہ قائم نہیں ہو رہا تھا۔ مگر اب اس کے پاس اور کوئی چادر یا کپڑا نہیں تھا۔
وہ واپس خیمہ میں آئی اور اپنی جوان سال بیٹیوں سے بولی "باتھ روم کے لئے میں ان پیچھے چادریں باندھ دی ہیں۔۔ اب ہم وہاں جائیں گے۔ "
تینو ں لڑکیوں کے ستے ہوئے چہرے پر کوئی رمق نہ آئی۔ وہ اپنی چادروں سے منہ چھپائےبیٹھی رہیں۔ فاطمہ کو اس ردعمل کی امید نہ تھی۔
"چلو! کس کو چلنا ہے؟"
تینوں نے ایک دوسرے کامنہ دیکھا۔ جانا تو تینوں کو تھا مگر ہمت کسی میں نہ تھی۔ کل کا سارا دن بھی روتے گزر گیا تھا۔ خیمہ کی ساری عورتیں پیچھے جا کر حوائج ضروریہ سے فارغ ہو رہی تھیں۔
مگر وہ سب حافظ قرآن تو نہیں تھیں نا، مولوی دین محمد کی بیٹیاں تو نہیں تھیں نا۔
سیلاب سے قبل جن بیبیوں کے پیر کسی غیر نہ دیکھے ہوں آج وہ کھلی جگہ پر بیٹھنے پر مجبور تھیں۔ جن کے گھر کے دروازے کے اندر باہر دو پردے ہوا کرتے تھے کہ غیر کی نگاہ خطا سے بھی ان تک نہ پہنچ پائے۔۔
آج وہ چھوٹی چھوٹی چادروں سے جنگ میں مصروف تھیں۔ سر ڈھکتیں تو نچلا بدن کھلتا، کھینچ کر نیچے کرتیں تو چہرہ عیاں ہو جاتا۔
نورالعین مزید برداشت نہیں کر سکی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ نور فاطمہ اس کو لے کر پیچھے کی طرف چل دی۔
"امی۔۔ یہ۔۔ یہ تو نیچے سے کھلا ہوا ہے۔۔ سامنے کی چادر بھی اڑ رہی ہے۔۔ "
نور فاطمہ بے بسی سے بولی
"بیٹا مجبوری ہے۔۔ کوئی اور چادر نہیں ہے۔۔ یہ بھی کل علی حسن نے کچھ چادریں لا دیں ہیں تو اتنا ہو سکا ہے۔۔ میں کھڑی ہوں یہاں۔۔ تم چلی جاؤ۔۔ میں کسی کو نہیں آنے دوں گی۔۔ "
نورالعین کی ضرورت بھی حد سے باہر ہونے کو تھی۔ چارو ناچار وہ چادر کے اندر چلی گئی۔
٭٭٭
"سرکار ہو نہ ہو یہ کسی افیمی کا کام ہے۔۔ کئی سال پہلے بھی ایک افیمچی مزار پر چوری کرتا پکڑا گیا تھا۔ "
فاروق حضرت ذیشان سرکارکے قریب کھڑا تھا جو صاحب مزار کی چادروں سے محروم قبر کو تک رہے تھے۔
"بد بخت ساری چادریں لے گیا!"
وہ منہ ہی منہ میں بولے پھر فاروق سے مخاطب ہوئے۔
چلو میرے ساتھ۔۔ میں گھر سے اورچادریں دیتا ہوں۔۔ "
فاروق نے ان کے گھر سے چادریں لا کر مزار کو ڈھک دیا اور بڑی دیر تک صاحب مزار سے معافی مانگتا رہا۔
٭٭٭
واپس آ کر نورالعین مسلسل رو رہی تھی۔ اس کو روتا دیکھ کر باقی دو نے باتھ روم جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
"امی۔۔ رات کو چلیں گے۔۔ اندھیرا ہو جائے گا۔۔ "
نور فاطمہ بولی
"رات میں سانپ بچھوؤں کا ڈر رہے گا۔۔ سیلابی پانی کی وجہ سے وہ بھی بے گھر ہو گئے ہیں بے چارے۔۔ "
دونوں بولیں
"کوئی بات نہیں امی۔۔ نا محرم کی نظر سے بہتر ہیں یہ سانپ بچھو۔۔ " نور فاطمہ کی آنکھیں بھیک گئیں۔
انھوں نے ہی تو یہ سبق سکھایا تھا۔
٭٭٭
چودہ سالہ علی حسن سے اپنی ماں بہنوں کی حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ گھر میں محرموں کے سامنے بڑی چادروں میں ملفوف رہنے والی اس کی با پردہ بہنیں آج نامحرموں کے درمیان بے پردہ تھیں۔
اور اس کی بہنیں ہی کیا!
خیمہ بستی میں موجود ہر عورت فطری شرم و حیا کے سبب مشکل میں تھی۔ خیمہ کے نام پر چند چادریں باندھ دی گئیں تھیں۔ ذرا تیز ہوا چلتی اور چادریں الٹ جاتیں۔
خواتین دن بھر گھٹنے موڑے بیٹھی رہتیں، اپنے محفوظ گھروں کو یاد کر کے روتیں۔ اور علی حسن یہ دیکھ کر کڑھتا رہتا۔
مگر اس نے حل نکال لیا تھا، آج پھر وہ رات کے وقت خیمے سے نکلا اورخاموشی سے مزار کی طرف بڑھنے لگا۔ تین دن پہلے بھی وہ مزار سے پانچ چادریں اتار کر لے گیا تھا۔
دو چادریں اس نے ایک عورت کو دیں جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ پریشان حال بیٹھی تھے اور باقی تین چادریں اپنی امی کے حوالے کیں۔
ابھی اور چادروں کی ضرورت تھی۔ خیمہ بستی کی ہر عورت اس کی ماں اور بہنوں جیسی ہی تھی۔ وہ سب کے سر ڈھکنا چاہتا تھا۔ وہ پتھروں پر چڑھتا اترتا۔۔ گرتا پڑتا۔۔ مزار تک پہنچ گیا۔
آج مزار ہر دو ہی چادریں تھیں۔ جوں ہی وہ چادریں اتار کردروازے کی طرف بڑھا ایک سخت ہاتھ نے اس کی گردن پکڑ لی۔
"چور۔۔ بے شرم۔۔ مزار کی چادریں چراتا ہے۔۔ "
فاروق ایک ہاتھ سے اس کی گردن پکڑے دوسرے سے مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ حضرت ذیشان سرکارنے اس ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔
"چھوڑ دو فاروق۔۔ "
فاروق کا ہاتھ تھم گیا۔ اس نے علی حسن کو چھوڑ دیا۔ حکم عدولی نہیں کرسکتا تھا ورنہ اسے اتنا غصہ تھا کہ آج وہ علی حسن کو جان سے ہی مار ڈالتا۔
حضرت ذیشان سرکار علی حسن سے مخاطب ہوئے۔ "شکل سے تو کسی اچھے خاندان کے لگتے ہو۔۔ مگر اتنی رزیل حرکت۔۔ "
علی حسن ہاتھ میں چادریں تھامے سر جھکائے کھڑا تھا۔
حضرت ذیشان سرکار نے قریب آ کر پوچھا۔ "کیوں کرتے ہو چوری؟ بتاؤ؟ نشہ کرتے ہو؟"
علی حسن جلدی سے بولا "نہیں نہیں نشہ نہیں کرتا۔۔ ادھرسیلاب زدگان کی خیمہ بستی میں عورتیں۔۔ بے پردہ ہیں۔۔ یہ مزار تو پہلے ہی سنگ مرمر سے ڈھکا ہے۔۔ میری ماں بہنوں کے سر ننگے ہیں۔۔ ان کے لئے۔۔ "
علی حسن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
فاروق پتھر کا مجسمہ بنا کھڑا رہ گیا۔ حضرت ذیشان سرکار کا سر جھک گیا۔
کچھ دیر بعد نگاہ بلند کی تو آنکھیں اشک ندامت سے نم تھیں۔ گہری آواز میں بولے "فاروق! گھر جاؤ۔۔ کہو مزار کی ساری چادریں دے دیں۔۔ میری ماؤں بہنوں کے کھلے سروں کی حرمت اس قبر سے کہیں زیادہ ہے۔ "
٭٭٭