Selab Kahani, Huqooq Ul Ibaad
سیلاب کہانی: حقوق العباد
رفتہ رفتہ صنم
تم سے ملی نظر
تو ہوا ہے اثر
خواب سا یہ جہاں
فرش دھواں دھواں
جنّتوں کا شہر
عافط اسلم کی مدھر آواز پورے کمرے میں گو نج۔ اقرا آنکھیں بند کئے موسیقی سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ اچانک ابا میاں کی چنگھاڑ سنائی دی۔
"کیا خرافات ہے یہ؟ آمنہ بیگم یہ تربیت کی ہے آپ نے؟"
اقرا نے جلدی سے مو بائل کی اسکرین کو ٹچ کیا۔۔ گھبراہٹ میں وہ بمشکل گانا روک پائی۔ اس کی امی آمنہ بیگم سر پر دوپٹہ لئے شوہر کے سامنے کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھیں۔
"نہیں۔۔ وہ تو بس۔۔ میں۔۔ "
شادی کے شروع میں ہی ان کے شوہر عبدالصبور نے ان پر ایسا رعب جمایا تھا کہ آمنہ کی ساری زندگی وہ ان کے سامنے لرزتے کانپتے گزر گئی۔ آج تو سمجھو قیامت ہی آ گئی۔
"اسی لئے اللہ کی طرف سے عذاب اترتے ہیں۔۔ خلق خدا پریشان ہے۔۔ لوگ سیلاب میں مر رہے ہیں۔۔ اور یہاں موسیقی سے دل بہلایا جا رہا ہے۔ "
اقرا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا اب کیا کرے؟ اسے کیا پتہ تھا کہ ابامیاں بے وقت گھر آ جائیں گے۔
امی بھی کہاں سننے دیتی ہیں۔۔ وہ تو آج کمرے میں کوئی نہ تھا تو اس نے گانا لگا لیا۔ ورنہ ان کے گھر میں موسیقی شجر ممنوعہ تھی۔
"نمازِ توبہ کا اہتمام کریں۔۔ خود بھی توبہ کریں اور اپنی اولاد سے بھی توبہ کروائیں۔۔ "
وہ نفرت انگیز لہجے میں بولے اور گھر سے نکل گئے۔
٭٭٭
عبدالصبور کی دینداری مثالی تھی۔ سر پرٹوپی، ہاتھ میں تسبیح، ٹخنوں سے اونچی شلوار دیکھنے والا بنا کچھ کہے سنے ہی ان کی شخصیت سے متاثر ہو جاتا۔
شہر میں کئی دکانیں تھیں۔ مختلف قسم کے کئی کاروبار تھے جن میں وہ اور ان کے دونوں بیٹے دن رات مصروف تھے۔ مگر جہاں موقعہ ملتا لوگوں کو دنیا کے فریب سے بچنے کی تلقین کرتے۔
"یہ دنیا دھوکہ ہے۔۔ فریب ہے۔۔ اور مال و دولت تو انسان کے گلے کا طوق ہے۔۔ بس ایسے کام کرو کہ اللہ راضی ہو جائے۔۔ اس کی عبادت کا اہتمام کرو۔۔ اس کے آگے جھکے رہو۔۔ اس مالک کے بڑے حقوق ہیں۔۔ ہم کہاں ادا کر سکتے ہیں۔۔ مگر کوشش جاری رکھو۔۔ "
لوگ جھوم جھوم کر ان کی باتیں سنتے اور سر دھنتے۔
٭٭٭
حلیے سے ہی لفنگا لگتا تھا۔
لمبے لمبے بال جن کی چند ایک لٹیں اس نے سنہری کروا لی تھیں۔ گلے میں عجیب واہیات سا لاکٹ ڈال کر رکھتا تھا، ہاتھوں میں کبھی کڑے۔۔ کبھی پٹّے۔۔ تو کبھی دھاگے، ہر وقت ہاتھ میں موبائل اور کان میں ہنڈ فری رہتی تھی۔
اشعر اپنے حلیے اور حرکتوں کی وجہ سے عبدالصبور کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ اگر کاروبار کا معاملہ نہ ہوتا تو وہ کبھی اس کی شکل نہ دیکھتے، مگر کیا کرتے مجبوری تھی۔ عبدالصبور کی عالی شان دکان کے بالکل برابر والی چھوٹی سی دکان اس کی ہی تھی۔
آج جب اس نے اپنے موبائل پر تیز آواز میں گانے چلاتائے توو عبدالصبور کا غصہ سے برا حال ہو گیا۔ ان کا بس نہ چلتا کہ اس کو نیست و نابود کردیں۔
"یہ کمبخت اپنے ساتھ ساتھ ہمارے کاروبار پرزوال لائے گا۔۔ جہاں اتنی خرافات ہو وہاں رزق کے فرشتے کیسے اتریں گے؟"
وہ تیزی سے دکان سے نکلے اور اشعر کی دکان کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔
" میاں کیوں اللہ کی قہر کو آواز دیتے ہو؟ کچھ شرم کرو، جس مالک کا کھاتے ہو اسی کی نافرمانی کرتے ہو۔۔ اس شیطانی چرخے میں کوئی ڈھنگ کی چیز بھی ہے یا بس یہ گانے بجانے ہی ہیں۔۔ "
اشعر موبائل کی آواز کم کرتے ہوئے بولا "کیا ہوا حاجی صاحب؟"
عبدالصبور نے اس کے لباس کو نفرت سے دیکھا۔
کالی ٹی شرٹ پر کسی لڑکی کی تصویر تھی اور پینٹ ایڑیوں سے بھی آگے نکل چکی تھی۔
"پہلے بھی کئی بار منع کیا ہے تمہیں۔۔ اتنی تیز آواز میں گانے نہ چلایا کرو۔۔ کچھ خوف خدا کرو۔۔ ادھر دکان میں ہم سیلاب میں مرنے والوں کے ایصال ثواب کر رہے ہیں۔۔ اور تم یہاں تیز آواز میں گانے سن رہے ہو۔۔ "
اشعر معافی کا اشارہ کرتا ہوا موبائل اٹھا کر دکان میں چلا گیا اور عبدالصبور اس کو "جہنمی" کہتے ہوئے واپس آگئے۔
٭٭٭
"ابا میاں۔۔ آج کل خیموں اور دریوں وغیرہ کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔ میں سوچ رہا ہوں زیادہ سے زیادہ خریداری کی جائے آج کل یہ سامان کافی اچھی قیمت پر بک رہا ہے۔ "
رات کا کھانا کھا کر باپ بیٹا کاروباری معاملات پر بات چیت کر رہے تھے۔ اپنے بڑے بیٹے کی کاروباری بصیرت دیکھ کر عبدالصبور کا دل خوشی سے لبریز ہو گیا۔ کم تو چھوٹا والا بھی نہ تھا وہ بھی اپنا ٹیلنٹ دکھانے لگا۔
"بالکل صحیح کہہ رہے ہیں بھائی جان آپ۔۔ سیلاب کی وجہ سے ان چیزوں کی ڈیمانڈ بڑ ھ گئی ہے۔ اللہ کے کرم سے ہمارے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ ہم آدھے شہر سے مال اٹھا سکتے ہیں۔ "
عبدالصبور نے دانتوں میں خلال کرتے ہوئے اپنے دونوں ہونہار سپوتو ں کو دیکھا اور بولے
"بس پھر کل سے ہی خریداری شروع کرو۔۔ زیادہ سے زیادہ مال اٹھا لو اور پھر اسٹاک کو روکنا کچھ دن۔۔ تاکہ مارکیٹ میں ڈیمانڈ پیدا ہو جائے۔۔ پھر مال نکالنا۔۔ انشااللہ منہ مانگی قیمت پر مال جائے گا۔ "
دونوں فرما بردار بیٹوں نے سر ہلا کر کہا "انشاااللہ، انشااللہ"
٭٭٭
جلد ہی شہر بھر سے خیمے اور دریاں ان کے گوداموں میں پہنچنے لگیں۔ ان کے بیٹے ہر جگہ سے مال اٹھا رہے تھے۔
اڑتے اڑتے یہ خبربھی سنی تھی کہ اشعر بھی مال خرید رہا ہے "ہونہہ۔۔ کتنا مال خرید لے گا؟ میرا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔ "انھوں نے نخوت سے سوچا۔
سیلاب زدگان کی امداد کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں پاگلوں کی طرح بازاروں میں سامان ڈھونڈتی پھر رہی تھیں اور عبد الصبور مال کی ڈیمانڈ بڑھتے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ مال منہ مانگی قیمت پر ہاتھوں ہاتھ جا رہا تھا۔
٭٭٭
اشعر کی دکان پر رش تھا۔ ایک تنظیم کے چند لوگ خیمے دریاں گاڑی پر لوڈ کر رہے تھے۔ عبدالصبور حسد بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لگتا تھا سارا اسٹاک ایک کی پارٹی نے اٹھا لیا۔
"احمق کہیں کا۔۔ سارا مال ایک دم بیچ ڈالا۔۔ روک روک کر نکالتا تو زیاد منافع ملتا۔۔ "وہ اس کی کم عقلی پر دل ہی دل میں ہنس دیئے۔
مال لوڈ ہونے کے بعد تنظیم کے لوگ اشعر سے بات چیت کرنے لگے۔ انھوں نے اشعر کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی مگر اس نے منع کردیا۔ گاڑی روانہ ہوتے ہی عبدالصبور اس کی دکان پر پہنچ گئے اور بولے " کیوں میاں۔۔ کتنے کا مال بیچ دیا؟"
اشعر ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا "حاجی صاحب۔۔ مال بیچنے کے لئے نہیں خریدا تھا۔ "
عبدالصبور حیران رہ گئے
"پھر؟"
اشعر بولا "اپنے مصیبت زدہ بھائیوں بہنوں کی امداد کے لئے خریدا تھا۔۔
حاجی صاحب گناہ گار سا بندہ ہو۔۔ اللہ کے حقوق تو ادا نہیں کر سکتا۔۔ مگر اس کے بندوں کے لئے تھوڑی بہت آسانی تو پیدا کر ہی سکتا ہوں۔۔ "
یہ کہہ کر اشعر حسب معمول اپنے موبائل میں گم ہو گیا۔
عبدالصبور کے زبان کو تالا لگ گیا، آج وہ اس کو حقوق اللہ پر اسے لیکچر نہ دے سکے۔
٭٭٭