Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Apna Kashkol Apne Sawal

Selab Kahani, Apna Kashkol Apne Sawal

سیلاب کہانی: اپنا کشکول اپنے سوال

کل تک وہ کہتا تھا "میں اپنی ماں کو کہیں نہیں جانے دوں گا۔۔ میں موت سے لڑ جاؤں گا، اپنی جان دے کر اپنی ماں کو بچا لوں گا"۔

اور آج ایک ایک سے کہہ رہاتھا، کچھ کرو بھائیو!۔۔ میری مدد کرو میری ماں کو اس گھر سے رخصت کرواؤ۔ "

پوری رات گزر گئی۔۔ دن چڑھ آیا۔۔ میں اور اس کو گھر میں نہیں رکھ سکتا۔۔ میرا سب کچھ لے لو مگر کہیں سے دو گز خشک زمین لا دو۔۔ "

مگر سب لاچار تھے۔۔ بارش کئی دن سے جاری تھی۔ کہیں خشک زمین نہ تھی، سیلاب ساری بند اور رکاوٹیں توڑتا ان کے گاؤں کی طرف بڑھ رہا تھا۔

زندہ انسان بہے جا رہے تھے، جمیل کی مر حوم ماں کو اس سیلاب سے کون بچاتا؟

٭٭٭

جمیل اپنی ماں سے والہانہ محبت کرتا تھا۔۔ ہر بیٹا کرتا ہے۔ ہر بیٹھا اپنی ماں کی قربانیوں کی داستان دل میں لئے پھرتا ہے۔

اگر بس میں ہو تو دنیا کا کوئی بیٹا اپنی ماں کو مرنےہی نہ دے، مگر انسان کے بس میں کچھ نہیں ہے۔ سب کی مائیں مر ہی جاتی ہیں، جمیل کی ماں بھی مر گئی۔

جمیل اس کے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ گھر، دکان کاروبار سب سے غافل ہو گیا۔ بڑے شہر کے ڈاکٹروں کو بھی دکھایا سب نے یہ ہی کہا ٹی بی کی آخری اسٹیج ہے۔۔ اب ان کا بچنا ممکن نہیں۔۔ اپنی ماں کو اور تکلیف نہ دو۔۔ یہ دوائیں۔۔ یہ انجیکشن سب بے کار ہیں اب انھیں گھر لے جاؤ۔۔ جتنی خدمت کر سکتے ہو کر لو۔۔ تمہاری ماں کے پاس بہت کم دن بچے ہیں"۔

جمیل مایوس ہو کر ماں کو واپس اپنے گاؤں لے آیا۔ اس نے خدمت میں کوئی کسر نہ رکھی، جب تک وہ زندہ رہی جمیل اس کے چارپائی سے لگا بیٹھا رہا۔

اس کی ہلکی سی آواز پر بھی وہ لبیک کہہ کر بھا گتا تھا۔ پورے گاؤں میں ماں سے محبت کی مثال بن گیا، مگر جمیل کی ساری خدمت بھی اس کی حیات نہ بڑھا سکی۔

بالاآخر ایک دن ماں اپنی تمام تکلیفوں سے آزاد ہو گئی۔ جمیل جو اتنے دن ضبط کئے بیٹھا تھا۔ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ اس نے ماں کی چارپائی پکڑ لی "میں اپنی ماں کو کہیں نہیں جانے دوں گا۔۔ "، آس پڑوس کے لوگ جمع ہو کر اس کوتسلی دینے لگے۔

بارشیں تو کئی دن سے ہو رہی تھیں مگر اس رات آسمان بھی کھل کر رویا۔۔ چھاجوں پانی بھر سا۔۔ جب جل تھل ہو گیا۔

ہمسائے تو ما جائے ہوتے ہیں۔۔ سب نے بہت ساتھ دیا، سب مل کر قبر کے لئے سوکھی جگہ ڈھونڈتے رہے۔ مگر پورا گاؤں مل کر بھی دوگز زمین نہ ڈھونڈ پایا جہاں پانی نہ ہو "جمیل بھائی کہیں خشک جگہ نہیں ملی۔۔ ماں کی تدفین کہاں ہو گی۔۔ "۔ کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

جمیل کو بچپن یاد آ گیا، ماں کو گیلا پن بہت برا لگتا تھا۔۔ جب جمیل چھوٹا تھا اور گیلے کپڑے ادھر ادھر پھینکتا تھا تو وہ خفا ہوتی تھی "جمیل۔۔ پھر تو اپنے گیلے کپڑے بستر پر چھوڑے۔۔ دیکھ تو۔۔ سارا گدا گیلا ہو گیا۔۔ کتنی بار کہا ہے مجھے یہ گیلا پن اچھا نہیں لگتا۔۔ "۔

ماں غصہ کرتی۔۔ گیلے کپڑے اور بستر کو دھوپ لگاتی اور آج اس کے آخری آرام گاہ کے لئے کہیں کوئی خشک کونہ میسر نہ تھا۔ پانی نے کسی پر رحم نہ کیا۔ زندہ انسانوں کے ساتھ مردہ انسانوں کے گھر وں میں بھی داخل ہو گیا۔

گاؤں کے قبرستان میں پانی بھر چکا تھا ساری قبریں زیر آب آ چکی تھیں۔ لوگ اپنے پیاروں کی آخری آرام گاہوں کی حالت زار دیکھ کر دکھی تھے۔ کیچڑ سے لت پت جمیل ماں کے سرہانے سر جھکائے بیٹھا رہا۔ سیلاب کی وارنگ جاری ہو چکی تھی گاؤں والے اپنا سامان باند ھ کر محفوظ مقام کی طرف جا رہے تھے۔

جمیل اور اس کی بہن افشاں و ریشماں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ جمیل کا گھر جو کل تک پر سہ دینے والوں سے بھرا تھا اب خالی ہو چکا تھا۔

مگر جمیل کیسے جا سکتا تھا؟ وہ ماں کو چھوڑ کر کہاں جاتا!

علی الصبح گاؤں میں بھگڈر مچ گئی۔ باہر سے کسی نے آواز لگائی۔ "جمیل۔۔ جلدی نکل۔۔ جان بچا۔۔ سیلاب آرہا ہے"۔

جمیل سوچ میں پڑ گیا "جان بچاؤں۔۔ مگر، کس کی؟ اپنی جان بچاؤ؟ اپنی بہنوں کی جان بچاؤں یا اپنی مرحومہ ماں کا جسد خاکی بچاؤں۔۔ "

گاؤں کے کچھ لوگوں نے اب تک جمیل کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا مگر اب خود ان کی جان بھی خطرے میں پڑ چکی تھی۔ گاؤں کی کچھ خواتین اس کی بہنوں کو ساتھ لے کر تیزی سے گاؤں سے نکل کر مین روڈ کی طرف بھاگیں۔

پانی گاؤں میں داخل ہو چکا تھا۔ گھر آدھے آدھے ڈوب رہے تھے۔ کمزور دیواریں منہدم ہو رہی تھیں۔ جمیل کا گھر پانی کی زد میں آ گیا تھا۔ جمیل نے اپنی ماں کا جسد خاکی کاندھے پر اٹھالیا۔ "میں اپنی ماں کو ڈوبنے نہیں دوں گا۔۔ "

وہ کئی کلو میٹر تک پانی اور کیچڑ میں چلتا رہا۔ ماں کا کفن گیلا ہو گیا۔ کیچڑ سے آلودہ ہو گیا۔ جلد ہی گاؤں کے کچھ اور لوگ اس کی مدد کو آ گئے۔ وہ ماں کو روڈ تک لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔

مگر، سخت گرمی تھی، شدید بیماری کی وجہ سے مرحومہ کا جسم یوں بھی کمزور ہو چکا تھا، جسد خاکی سے تعفن اٹھے لگا تھا۔

روڈ کے کنارے لوگوں نے چادریں باندھ کر خیمے بنا لئے تھے مگر کوئی بھی جمیل کی ماں کے جسد خاکی کو اپنے خیمے میں جگہ دینے کو تیار نہ تھا۔ بھوک اور پریشانی نے لوگوں کی ہمدردی کو کھانا شروع کر دیا تھا۔

اس کی بہن افشاں نے جمیل کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ بھائی۔۔ ماں کا حق تو کوئی ادا نہیں کر سکتا۔۔ مگر تم جتنا کر سکتے تھے تم نے کیا۔۔ وہ جمیل کی پشت پر سر رکھ کر رونے لگی۔

"اب بس آ خری کام رہ گیا ہے۔۔ وہ بھی تم ہی کرو گے۔۔ ماں کو جلدی اس کی آخری آرام گاہ تک پہنچا دو۔۔ " بہن پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

جمیل کے ضبط کا بند ایک بار پھر ٹوٹ گیا، تھکن اس کے روم روم میں بس گئی تھی۔

ویسے تو اس عارضی خیمہ بستی میں ہر کوئی تھکا ہو اتھا مگر جمیل کی تھکن سب سے سوا تھی۔ لگتا تھا بدن کا ہر جوڑ کھل جائے گا اور اس کا جسم کنکریوں کی صورت میں بکھر کر زمین پر ڈھیر ہو جائے۔

مگر جمیل تو زمین پر بکھر بھی نہیں سکتا تھا۔ آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ نہ وضو کے لئے پانی موجود تھا، نہ کسی کے پاس صاف لباس تھا۔ نہ قبر کھودنے کے لئے اوزار تھے۔

مرنے سے چند دن قبل ماں نے کہا تھا "جمیل میری قبر اپنی نانی کی قبر کے قریب ہی بنانا۔۔ بہت چھوٹی عمر میں شادی ہو گئی۔۔ ماں کے ساتھ رہ ہی نہ پائی۔۔ زندگی بھر ماں کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ترستی ہی رہ گئی۔ میں مر کر اپنی ماں کے قریب رہنا چاہتی ہوں۔۔ "

جمیل کے سینے سے ہوک اٹھی "ہائے میری ماں! اس بیابان میں تنہا رہے گی۔۔ سیلاب اتر جائے گا۔۔ سب اپنے اپنے گھر لوٹ جائیں گے۔۔ مگر میری ماں کبھی نہیں لوٹے گی۔۔ وہ اس بیابان میں ابد تک رہے گی۔۔ "

جمیل نے اپنے آنسو صاف کئے اور تمام تر ہمت مجتمع کرکے اپنے شل ہاتھوں اور لکڑیوں کی مدد سے قبر کھودی۔ باقی لوگوں نے بھی اس کی مدد کی مگر ہر کوئی اپنی اپنی تھکن کی قبریں کھود کر بیٹھا تھا۔ کوئی بھی جمیل کا زیادہ ساتھ نہیں دے پایا۔

قبر تیار ہوئی تو جمیل کا دل چاہا ماں کی جگہ خود اس میں سما جائے۔۔ زندگی کی آزمائشوں سے قبر میں ہی پناہ مل سکتی ہے۔

جمیل سمیت سب ہی خاک میں اٹے ہوئے تھے۔ اسی حالت میں ماں کی نماز جنازا ادا کی گئی۔

نماز جنازہ کے بعدجمیل نے اپنے ہاتھوں سے ماں کو قبر میں اتارا۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے گئے۔

"یا اللہ میری ماں پر قبر کی رات آسان کر دینا۔۔ "

دست سوال دراز کئے علی بخش کو اپنی جوان بیٹیاں یاد آ گئیں جن کا جہیز سیلاب کی نذر ہو چکا تھا اور شادی سر پر کھڑی تھی۔ اس کے دل سے صدا اٹھی "یا اللہ میری بیٹیوں کے لئے زندگی آسان کر دینا۔۔ "

جمیل نے رقت بھری آواز میں اپنے رب کو پکارا "یا اللہ میری ماں کو اپنے ہاں اچھا گھر عطا فرمانا"۔

عبداللہ نے نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھا جس کا گھر سیلاب میں منہدم ہو چکا تھا۔۔ "الٰہی میرا گھر۔۔ "آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

"یا اللہ میری ماں کی قبر کو کشادہ کردینا"

رفیق کی آنکھوں میں اپنا اجڑا کھیت بسا تھا۔۔ اب پورا سال کس تنگی سے گزرے گا!

اس کے سینے سے ہوک اٹھی اور ایک اشک پھیلے ہوئے ہاتھوں پر آ گرا۔

جمیل کی دعا میں سب شامل ہو کر بھی کوئی شامل نہ تھا۔۔

ہاتھ سب کے دراز تھے مگر ہر کسی کے کشکول میں اپنے اپنے سوال پڑے تھے۔

Check Also

Selfie Program

By Syed Mehdi Bukhari