Selab Kahani, 50 Ka Note
سیلاب کہانی: پچاس کا نوٹ
زبیدہ نے تیسری بار اپنے ننھے سے بٹوئے کی زپ کھول کر پچاس کے اس نوٹ کو دیکھا۔ بٹوئے میں اب بھی پچاس کا ایک اکلوتا نوٹ جوں کا توں تھا۔ اس نے زپ بند کی۔۔ بٹوا تکیے کے نیچے رکھا اور اسی تکیے پر لیٹ کر دوپٹہ سے منہ ڈھک لیا۔
ثانیہ یہ سب دیکھ رہی تھی بولی "امی! کیا اس سال ماموں نہیں آئیں گے؟"
زبیدہ نے دوپٹہ ہٹا کر اپنی بارہ سالہ بیٹی کو دیکھا۔ وہ اس کے پانچ بچوں میں سب سے بڑی تھی۔ یتیمی اور غربت نے وقت سے پہلے ہی اس کو سمجھدار بنا دیا تھا۔ ماں کو باربار بٹوا کھولتے دیکھ کر وہ سمجھ چکی تھی کہ امی کے پاس پیسے پھر ختم ہو چکے ہیں۔
زبیدہ اٹھ بیٹھی اور بولی "نہیں بیٹا۔۔ ماموں اس سال نہیں آ سکیں گے۔۔ ان کی فضل سیلاب کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہے۔۔ راستے بھی سب بند ہیں"۔
زبیدہ کا بھائی ہر سال آبائی زمین پر جو بھی فصل اگاتا اس میں سے زبیدہ کو حصہ پوری ایمان داری سے دے جاتا تھا۔ آبائی زمین تھی ہی کتنی؟
مگر خوف خدا اس کو مجبور کرتا اور وہ بطور حقِ وراثت آبائی زمین کی کاشت میں سے بیوہ بہن کا حصہ ہر کٹائی پر ادا کرتا۔ گوکہ خود اس کے کرُتے میں سال بہ سال پیوندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی اور اس بار تو یہ آسرا بھی سیلاب کی نذر ہو گیا۔
باہر ایکا ایکی شور اٹھا اور ثانیہ سے چھوٹی مریم بھاگ کر تخت پر چڑھی اور کھڑی کی پردہ سرکا کر باہر دیکھنے لگی۔ کھڑکی کے بالکل سامنے غریبوں اور سیلاب زدگان کے لئے راشن کیمپ لگایا گیا تھا اور حسب معمول لوگ وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔
"امی۔۔ ہم بھی ان سے راشن لے آتے ہیں۔۔ "دس سالہ مریم نے مڑ کر زبیدہ کی طرف دیکھا اور کہا خطیب کی بیٹی، موذن کی بہن اور پیش امام کی بیوہ کیسے باہر جا کر دست سوال دراز کر سکتی ہے [اچھے وقتوں میں اعزازات کے پہناۓ گئے ہار برے وقت میں پیروں کی زنجیروں میں بدل جاتے ہیں۔ ]
زبیدہ پھر سے لیٹ گئی اور بولی "نہیں بیٹا ہم ان سے راشن نہیں لے سکتے۔۔ ہم سید ہیں۔۔ ہم کسی سے بھی نہیں مانگ سکتے۔۔ "
جب تک زبیدہ کا شوہر زندہ رہا، روکھی سوکھی ہی سہی تین وقت پیٹ بھر کھانا ملتا رہا۔ عید بقر عید بچوں کے نئے کپڑے بھی بنتے رہے۔ بچے اسکول بھی جاتے رہے۔
مگر اب۔۔ گھر میں فاقے کی نوبت آپہنچی تھی۔ باروچی خانے میں گھی، تیل کے خالی ڈبے اپنے وجود پر شر مندہ تھے۔ آج کا دن تو گزر گیا لیکن کل کیا ہوگا؟ آخری پچاس کا نوٹ بٹوئے میں منہ چھپائے پڑا تھا اور باہر راشن بٹ رہا تھا۔
"یا اللہ۔۔ یہ کیسی آزمائش ہے!"
بچوں کی بھوک کا سوچ کر زبیدہ جیسی صابر شاکر عورت بھی شکوہ کرنے پر مجبور ہو گئی۔ "کس سے کہوں؟"
غریبو ں کی بستی تھی۔ سب ایک سے حال میں زندگی گزار رہے تھے مگر زبیدہ دہری مشکل کا شکار تھی۔ بھوک پنجے گاڑ رہی تھی اور عزت سوال کرنے سے روک رہی تھی۔ اہل محلہ کے کئی بچے سپارہ پڑھنے آتے تھے مگر ان میں سے چند ایک ہی تھے جو فیس کے نام پر معمولی رقم ادا کرتے تھے۔ یہ کڑا وقت زبیدہ جیسے گزار رہی تھی وہ ہی جانتی تھی۔
٭٭٭
"علی! ہم سے روزانہ کئی لوگ راشن لے کر جا رہے ہیں۔۔ "اسد نے راشن کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا "ہاں یار۔۔ اللہ کا کرم ہے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔۔ " علی سیدھا ہوتے ہوئے بولا "ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔۔ " اسد کچھ سوچتے ہوئے بولا اور علی ہکا بکا رہ گیا
"کیا مطلب؟ کیسا نہیں ہونا چاہئے تھا؟
یار!ہم نے ان لوگوں کی مددکے لئے ہی تویہ تنظیم بنائی ہے۔ ان لوگوں کے لئے ہم نے امداد جمع کی ہے۔ یہ سارا کام ان غریبوں کی مدد کے لئے ہی تو کیا ہے۔۔ "
اسی وقت تنظیم کے کچھ لڑکوں نے راشن کے ٹرک کا کپڑا ہٹانا شروع کیا۔ امداد کے منتطرین ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے ٹرک کی طرف بھاگے۔ اسد ان راشن کے تھیلے چھینتے لپکتے لوگوں کو پُر خیال نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"علی۔۔ ان لوگوں کو غور سے دیکھو۔۔ ان میں زیادہ تر پیشہ ور گدا گر ہیں۔۔ یہ ہم سے راشن لے کر دکانوں پر کم قیمت میں بیچ دیتے ہیں۔ اب ذرا پیچھے کھڑے ان چند لوگوں کو دیکھو!"
اسد نے ان چند لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو بے بسی سے اس چھن چھپٹ کو دیکھ رہے تھے۔
"نہ وہ راشن کے تھیلے ایک دوسرے سے چھین رہے ہیں۔۔ نہ مانگ رہے ہیں۔۔ مگر ان چہرے دیکھو!کیسی بے بسی ہے!یہ حقیقی ضرورت مند ہیں۔۔ ہمیں ان کی مدد کرنی ہے۔۔ نہ کہ گدا گروں کی۔۔ "
علی بھی یہ منظر دیکھ رہا تھا جو اسد نے اس کو ایک تناظر میں دکھایا تھا۔ وہ اسدکی بات سے سو فیصد متفق ہو چکا تھا۔
٭٭٭
اگلے دن جب راشن سےبھرا ٹرک آ کراپنی مخصوص جگہ کھڑا ہواتو اس پر لگا بینر تبدیل ہو چکا تھا۔
اسد نے مائک پر اعلان کرنا شروع کیا۔
"سبزی 10 روپے کلو، چینی، آٹا، چاول اور دالیں 15 روپے کلو، کسی کو بھی ایک کلو سے زیادہ سامان نہیں دیاجائے گا۔ "
اعلان سن کر کئی پرانے چہروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور وہاں سے کھسکنا شروع ہوگئے۔ رفتہ رفتہ نئے لوگ ٹرک کے گرد جمع ہونے لگے۔ ان ہی لوگوں میں زبیدہ بھی شامل تھی۔ اعلان سنتے ہی اس نے اپنا برقعہ اٹھایا ننھا سا بٹوا ہاتھ میں دبایا اور سامان خریدنے نکل کھڑی ہوئی۔
اسد اور علی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ علی نے کہا " تم ٹھیک کہتے تھے اسد۔۔ یہ حقیقی ضرورت مند ہیں۔۔ جو اپنی عزت نفس کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔۔ یہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہتے۔۔ "
اسد بھی دل سے مسکرایا تھا۔ "ہاں دیکھو۔۔ نہ دھکم پیل نہ گالی گلوچ۔۔ کتنے طریقے سے سب کام ہو رہا ہے۔۔ ہم یہ ہی تو کرنا چاہتے تھے نا۔۔ "
٭٭٭٭
زبیدہ کو لگ رہا تھا کہ وہ پچاس روپے میں کائنات خرید لائی ہے۔ "آج میرے بچے پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے"۔
یہ احساس زبیدہ کے دل کو خوشی سے بھر رہا تھا وہ بھاری تھیلا اٹھائے گھر کی طرف دوڑی چلی جا رہی تھی۔ گھر آ کر اس نے سامان رکھا تو بچے بھی خوشی خوشی تھیلے میں جھانکنے لگے۔ ثانیہ ایک ایک چیز نکال نکال کر تخت پر رکھنے لگی۔
گھی کی تھیلی، آئل کی تھیلی، چینی، چائے کی پتی، لال مرچ، نمک اور ہلدی کا پیکٹ، زبیدہ حیرت سے سامان کو دیکھ رہی تھی۔۔ "میں نے اتنا کچھ تو نہیں خریدا تھا!"
وہ سوچ میں پڑ گئی۔ ثانیہ سامان نکالتی رہی دالیں، آٹا، چاول، سبزیاں اور پچاس کانوٹ۔۔
ثانیہ حیرت سے ماں کو دیکھنے لگی۔ زبیدہ کی آنکھیں ممنونیت کے احساس سے نم ہو گئیں۔
٭٭٭