Tosha Khanna Se Mustafeez Hone Wale Hukumran?
توشہ خانہ سے مستفیض ہونے والے حکمران؟
توشہ خانہ کسے کہتے ہیں؟ حکومت پاکستان کے قوانین کے مطابق اس سے کوئی تحفہ کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟ نیز وہ کونسے حکمران تھے، جو اس بہتی گنگا کا حصہ بنے؟ اور وہ کون سے خوش نصیب حکمران تھے، جنہوں نے تمام تحائف توشہ خانہ میں جمع کروا دیے؟ ذیل میں تمام تفاصیل پیش خدمت ہیں۔
(1)۔ توشہ خانہ کیا ہے؟
توشہ خانہ یا اسٹیٹ ریپازیٹری ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔
کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں، اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں، یا کابینہ کی منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے، تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 2020ء سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی، تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔
(2)۔ ان تحائف کی نیلامی کا طریقۂ کار کیا ہے؟
حکمرانوں کی جانب سے توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے تحائف حکومت کے بنائے ہوئے قواعد کے تحت ہی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔
اگر کوئی سربراہِ مملکت چاہے تو وہ ملنے والے کسی تحفے کو مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے، مگر پاکستان اور انڈیا میں ایسے تحائف کی نیلامی بھی کی جاتی ہے، اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔ سربراہان مملکت اور وزراء کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کے بعد اسٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کروایا جاتا ہے اور نیلامی کی جاتی ہے۔
اگر سربراہان مملکت یا وزراء یہ تحائف نہیں رکھتے، تو پھر ان تحائف کی فہرست تیار کر کے انھیں توشہ خانہ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین اور فوج کے افسران کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ توشہ خانہ قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اسے نہیں لیتے، تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ اگر اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں، تو انھیں عام عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔
(3)۔ توشہ خانہ سے کن حکمران نے تحائف حاصل کئے؟
توشہ خانے کے "مال مفت دل بے رحم پر" ہر حکمران کو کھلے دل تحائف وصول ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق اب تک ملک کے تیرہ صدر اور وزیراعظم توشہ خانے سے تین ہزار انتالیس تحفے لے چکے ہیں، جن کی کل مالیت 160 ملین روپے بنتی ہے۔ تحفے لینے والوں میں ضیاء سے مشرف تک، صدر جونیجو سے شوکت عزیز تک وزرائے اعظم شامل ہیں۔
آصف زرداری نے بطور صدر دو بی ایم ڈبلیو اور دو ٹویوٹا جیپ کے لیے توشہ خانہ میں 93 لاکھ جمع کرائے۔ یعنی اصل مالیت کا محض 15 فیصد ہے۔ یہ قیمتی گاڑیاں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے دی تھی۔
نواز شریف کو بطور وزیراعظم دونوں ادوار میں ایک کروڑ مالیت کے 127 تحائف ملے، نوازشریف نے 14 لاکھ میں 75 تحفے وصول کئے۔
شوکت عزیز پاکستان سے جاتے ہوئے 1 ہزار ایک سو 26 تحفے ساتھ لے گئے۔ جن میں نیکلس، قیمتی زیورات، ہیرے، سونا، گھڑیاں، اور قالین شامل تھے۔ تحفوں کی مالیت 26 ملین روپے بنتی ہے۔
جنرل مشرف تین کروڑ 81 لاکھ کے پانچ سو پندرہ تحفے ساتھ لے گئے۔ جن میں ہیرے، گولڈ سیٹ، قیمتی زیورات، خنجر اور پستول شامل ہیں۔
پرانے حکمرانوں کی بات کی جائے تو جنرل ضیاء نے توشہ خانے سے سولہ لاکھ روپے میں 122 تحفے لیے۔
محمد خان جونیجو دو لاکھ انیس ہزار ادا کر کے 304 تحفے لے گئے، غلام اسحاق خان نے محض 67 ہزار میں 88 تحفے وصول کیے۔
بے نظیر بھٹو 2 لاکھ 72 ہزار میں 174 تحفے ساتھ لے گئیں۔
دو ایسے خوش قسمت حکمران بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جنہوں نے توشہ خانہ سے کچھ بھی وصول نہیں کیا، ان میں ایوب خان واحد صدر اور بلخ شیر مزاری واحد وزیراعظم تھے، جنہوں نے تمام تحفے توشہ خانہ میں جمع کروائے، اور گھر لے کر نہیں گئے۔
دلی دعا ہے اللہ تعالیٰ سے پاکستان کو ایسا حکمران اور لیڈر عطا فرمائے، جو اس ملک کی تقدیر بدل دے۔ اور ہمارے ملک کے حکمران اور عوام سر اٹھا کر دنیا بھر میں جینے کے قابل ہوں۔