Hazrat Abu Bakr Siddiq (8)
حضرت ابوبکر صدیق (8)
اعلان نبوت کے چوتھے سال جب اعلانیہ دعوت اسلام کا حکم نازل ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اعلانیہ تبلیغ کی جانب بلانا شروع کر دیا۔ اس پر مشرکین قریش بھڑک اٹھے، اور انہوں نے مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیے۔ بالخصوص اسلام قبول کرنے والے غلاموں اور لونڈیوں پر انہوں نے ایسے ایسے ظلم ڈھائے، کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ ظلم و ستم کے اس دور میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بےدریغ مال خرچ کر کے متعدد مظلوم غلاموں اور لونڈیوں کو ان کے سنگدل آقاؤں سے خرید خرید کر آزاد کروایا۔
ارباب سیر نے ایسے درج ذیل افراد کے نام خصوصیات سے لیے ہیں، جنھیں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دست کرم نے فی سبیل اللہ نعمت آزادی سے بہرہ ور کیا۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
حضرت بلال ابن رباحؓ:
حضرت بلال ابن رباحؓ بنو جمح کے ایک مشرک امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا، تو اس ظالم نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ وہ آپ کو دوپہر کے وقت مکہ کی تپتی ہوئی ریت پر لٹاتا، اور ایک بھاری پتھر آپ کے سینے پر رکھ دیتا، اور کہتا کہ محمد (ﷺ) کی پیروی سے باز آ جا، اور لات اور عزی کو معبود برحق ہونے کا اقرار کر لے، ورنہ اسی طرح پڑا رہے گا۔ اس کے جواب میں آپ "احد احد" ہی کیے چلے جاتے۔ شقی القلب امیہ بیکس بلال کے لیے ہر روز نیا عذاب تجویز کرتے۔
کبھی آپ کو لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں ڈال دیتے، کبھی آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر تاریک کوٹھڑی میں ڈال دیتے، اور تازیانے رسید کرتے رہتے، کبھی آپ کے گلے میں رسی ڈال کر محلہ کی لونڈیوں کے سپرد کر دیتے، کہ وہ آپ کو مکہ کی گلیوں اور پہاڑوں میں گھسیٹتی پھرتی، پھر انہیں لوہے کی طرح گرم ریت پر اوندھے منہ لٹا دیتے، اور پھر آپ پر پتھروں کا ڈھیر لگا دیتے۔ ایسے ہی سخت عذاب دے دے کر آپ کو اسلام سے روگردانی کا کہا جاتا، لیکن آپ "احد احد" ہی کہتے رہتے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا گھر بنو جمح کے محلے میں ہی تھا۔ وہ ہر روز شیدائے حق بلال کو طرح طرح کی عقوبتوں میں مبتلا دیکھتے، تو ان کو سخت دکھ ہوتا۔ آخر ایک دن آپ نے بلال کو ایک معقول رقم کے عوض امیہ سے خرید لیا، اور آزاد کر دیا۔ ایک اور روایت ہے کہ ابوبکر صدیق نے اپنے ایک تنو مند غلام اور چالیس اوقیہ چاندی کے بدلے بلال کو خریدا اور آزاد کیا۔
حضرت حمامہؓ:
حصرت بلالؓ کی والدہ تھیں، اور آپ پر بھی قبول حق کے جرم میں ظلم ڈھائے جاتے تھے۔
ام عبیسؓ:
آپ بنو زہرہ کی لونڈی تھیں، اور آپ پر قبول حق کے جرم میں اسود بن عبد یغوث طرح طرح کے ظلم ڈھاتا تھا۔
عامر بن فہیرہؓ:
آپ طفیل نامی شخص کس کے غلام تھے۔ اسلام قبول کرنے پر طفیل آپ پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتا، اور مارتا پیٹتا رہتا تھا۔
نہدیہؓ اور آپ کی بیٹی:
ماں اور بیٹی دونوں بنی عبد الدار کی ایک عورت کی لونڈیاں تھیں۔ یہ عورت آپ دونوں پر بہت سختیاں کرتی تھی، اور اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتی تھی۔
ابو فکیہ یسا رازدی:
امیہ بن خلف اور اس کا بیٹا صفوان بن امیہ آپ کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر اوندھے منہ لٹا دیتے، اور ان کی پیٹھ پر بھاری پتھر رکھ دیتے۔ کبھی آپ کا گلہ اس زور سے گھونٹتے کہ آپ بے ہوش ہو جاتے۔
لبینہؓ:
آپ بنی مومل (بنو عدی کی ایک شاخ) کی ایک لونڈی تھی۔
زنیرہ الرومیہؓ:
آپ بنو مخزوم کی لونڈی تھیں، اور ابوجہل آپ کو سخت عذاب دیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آپ کی بینائی جاتی رہی، اس پر ابوجہل نے آپ کو طعنہ دیا، کہ لات و عزی نے تجھے اندھا کر دیا۔ آپ نے مومنانہ شان کے ساتھ جواب دیا، ہرگز نہیں، لات اور عزی کو تو اپنی خبر بھی نہیں وہ کیا جانیں، انہیں کون پوجتا ہے، اور کون نہیں پوجتا، ہاں میرا اللہ اس بات پر قادر ہے، کہ وہ میری بینائی واپس دے دے، چنانچہ وہ دوسرے روز اٹھی تو اللہ نے آنکھیں روشن کر دی تھیں۔ (سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 46 تا 49)
ابو نافعؓ:
آپ جب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، تو آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپ کو خرید کر آزاد فرمایا۔
مرہ بن ابو عثمانؓ:
آپ کو بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خرید کر آزاد فرمایا۔ آپ کو عراق کی فتح کے بعد بصرہ کے قریب ایک جریب کی جاگیر عطا کی گئی، جہاں آپ کی نسل آج بھی موجود ہے۔
سلیمان بن بلالؓ:
آپ نہایت حسین و جمیل تھے۔ آپ سے بہت سی احادیث مروی ہے۔ آپ کا وصال مدینہ منورہ میں ہوا۔
سعدؓ:
سعدؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غلام تھے، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے حکم پر آزاد کیا۔ امام حسن بصری، امام ترمذی وغیرہ نے آپ سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔
کثیر بن عبید التیمیؓ:
آپ کا شمار بھی ابوبکر صدیق کے آزاد کردہ غلاموں میں ہوتا ہے۔ ابن حبان نے آپ کا شمار ثقہ راویوں میں کیا ہے۔ (سیرت سیدنا ابوبکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 51 اور 52)
علامہ ابن جریر طبری اور ابن عساکر نے عامر بن عبد اللہ بن زبیر کی یہ روایت نقل کی ہے، کہ ابوقحافہؓ نے اپنے فرزند کو غریب لونڈیوں اور غلاموں کی آزادی پر بے تحاشا دولت خرچ کرتے دیکھا، تو انہوں نے اپنے بیٹے ابوبکر کو کہا:
"بیٹا ایسے کمزور لوگوں کو آزاد کرانے کا کیا فائدہ؟ اگر تم چست اور تنومند غلاموں کو آزاد کراتے، تو وہ تمہارے احسان مند رہتے، اور مشکل وقت میں تمہارے کام آتے"۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا:"ابا جان، میں کسی دنیاوی فائدے کے لیے ان کو آزاد نہیں کراتا، میں تو اس کا وہ اجر چاہتا ہوں، جو اللہ کے پاس ہے۔ "
جب مشرکین نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے آپ کو ہمہ تن اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کر دیا ہے، اور اپنی دولت کو مسلمان ہونے والے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے میں بے دریغ خرچ کر رہا ہے، تو انہوں نے آپ سے "اشناق" کا منصب چھین لیا، لیکن آپ نے اس کی پروا نہیں کی اور برابر اپنے کام میں مصروف رہے۔ (سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 49 اور 50)۔