Hazrat Abu Bakr Siddiq (4)
حضرت ابوبکر صدیق (4)
مدح در شانِ ابوبکر ایں قصیدہ اَلسَّلام
اَلسَّلام! اے قبلہ گاہِ دین و دنیا اَلسَّلام
اَلسَّلام! اے سیرتِ احمد سراپا! اَلسَّلام
اَلسَّلام! اے عائشہ کے پیارے بابا! اَلسَّلام
اَلسَّلام! اے نائبِ داعی الی اللہ! اَلسَّلام
اَلسَّلام! اے ہمدمِ صادق ہمیشہ! اَلسَّلام
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بچپن کے حالات۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ بچپن سے اعتدال پسند، پاکباز اور بلند اخلاق کے مرقع تھے۔ آپ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ کفر و شرک اور فسق و فجور کا دور تھا، خانہ کعبہ کا متولی اور محافظ قبیلہ قریش بھی عرب کے دوسرے قبیلوں کی طرح کفر و شرک میں گلے تک دھنسا ہوا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب ابو بکر کی عمر چار سال تھی، تو آپ کے والد ابو قحافہ آپ کو اپنے ساتھ بت خانہ لے گئے، اور وہاں پر نصب ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے آپ سے فرمایا۔
"یہ ہے تمہارا بلند و بالا خدا ہے، اس کو سجدہ کرو" ننھے ابو بکر نے بت کو مخاطب کر کے کہا۔
"میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا دے، میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے، میں تمیں پتھر مارتا ہوں، اگر تم خدا ہو، تو اپنے آپ کو بچا لو" بھلا وہ پتھر کا بنا ہوا، کیا جوب دیتا، ابو بکر نے اس کو ایک پتھر اس زور سے مارا کہ وہ گر پڑا۔ ابو قحافہ یہ دیکھ کر غضبناک ہو گئے۔ انہوں نے ننھے ابو بکر کو رخسار پر تھپڑ مارا، اور وہاں سے گھیسٹے ہوئے ام الخیر کے پاس لائے۔ انہوں نے ننھے بچے کو گلے لگا لیا اور ابو قحافہ سے کہا۔
"اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، جب یہ پیدا ہوا تھا، تو مجھے اس کے بارے میں غیب سے کئی اچھی باتیں بتائی گئی تھیں" اس وقعے کے بعد کسی نے آپ کو بت پرستی وغیرہ پر مجبور نہیں کیا، اور آپ کا دامن شرک سے پاک رہا۔ عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا، اور بحثیت مجموعی عرب ایک ان پڑھ قوم تھی، البتہ خال خال لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے، اور سیدنا ابو بکر ان میں سے ایک تھے۔
قیاس یہ ہے کہ ابو قحافہ نے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ اس طرح آپ نہ صرف پڑھنا لکھنا جان گئے، بلکہ شرفاء کے دوسرے اچھے مشاغل میں بھی آپ کو دسترس حاصل ہوگئی، مثلاً لڑنے کا ڈھنگ، ہیتھاروں کا استعمال، شعر گوئی اور شعر فہمی، تجارت وغیرہ۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی، لیکن آپ عیش و عشرت اور شراب خوری جیسے ذمائم سے ہمیشہ نفور رہے۔ (سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 37 اور 38)