Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nida Ishaque/
  4. Aamriat, Aik Pendulum

Aamriat, Aik Pendulum

آمریت، ایک پینڈولم

چائینیز فلسفی "لاؤ سو" (Lao Tzu) کی کتاب "ٹاؤ ٹی چنگ" کوئی خود-بہتری (self-improvement) یا روحانیت کا تجربہ دلوانے والی کتاب نہیں ہے جسے سمجھ کر آپ اپنی پروڈکٹوٹی اور جذباتی صحت کو درست کر سکتے ہیں، بلکہ یہ کتاب ایک فلسفی نے اپنے دور کے جابر کرپٹ آمر کے جبر کے جواب میں لکھی ہے۔ یہ کتاب آمر، حکمرانوں اور لیڈران کے لیے ہے کہ کیسے اور کس حکمتِ عملی سے کسی لیڈر کو حکومت کرنی چاہیے اور حکومت کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔

چونکہ لاؤ سو کے زمانے میں چائینیز آمر بہت جابر اور کرپٹ تھے یہ کتاب آمروں کو بتاتی ہے کہ طاقت صرف سختی نہیں نرمی (power of softness) سے بھی قائم رکھی جا سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لاؤ سو جابر حکمران کو کہتا ہے کہ "پانی کی مانند بنو"۔ میں نے جو بھی تھوڑی بہت تاریخ پڑھی ہے تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے کچھ بھی نہیں بدلا، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز ایک چکر (cycle) مکمل کرتی ہے، ہمیں لگتا ہے کہ فلاں لیڈر کی وجہ سے انقلاب آیا لیکن دراصل یہ وقت ہی ہوتا ہے جو معماملات اور حالات کو بدلتا رہتا ہے۔

کوئی بھی ادارہ کوئی بھی انسان خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، ایک وقت آتا ہے جب مضبوط سے کمزور ہونے تک کا سفر طے کرنا پڑتا ہے، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں۔ دنیا میں بڑی اور طاقتور حکومتیں زمین بوس ہوگئیں، کئی سو سال تک چلنے والی ریاستیں ٹوٹ گئیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان اداروں، حکومتوں کو "پینڈولم" کہتے ہیں جو اپنی موت آپ مرتے ہیں، یا پھر انہیں سپورٹر سے انرجی ملنا بند ہو جائے تو یہ مانند پڑنے لگتے ہیں۔

میں عموماً سیاست پر تبصرہ نہیں کرتی، کیونکہ مجھے اسکی حقیقت (reality) کی کوئی خبر نہیں۔ ہم صرف ان معمالات پر بہتر طور پر بول پاتے ہیں جن کی حقیقت (reality) ہم نے دیکھی ہو، جسے ہم نے تجربہ کیا ہو، جہاں ہماری موجودگی ہو۔ لیکن تاریخ سے ہمیں اکثر شواہد ملتے ہیں کہ ماضی میں معاملات کیسے وقوع پذیر ہوئے اور پھر اس بناء پر ہم سب اپنے اندازے لگاتے رہتے ہیں۔ سب اندازے ہی لگاتے ہیں، شاید مشینوں کی حکومت آنے سے ہمارے اندازوں میں کچھ بہتری آ جائے البتہ انسانی دماغ بہت ہی بیکار قسم کے اندازے لگاتا ہے، انتہائی جانبدار۔ جس کا نقصان ہم صدیوں سے بھگت رہے ہیں۔

آمروں کی حکومت ہمیشہ سے ناپسندیدہ رہی ہے، اس نظام کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھی اور اٹھتی رہے گی (لیکن حکومت ہر قسم کی خواہ جمہوریت ہو یا آمریت اس کے خلاف آوازیں اٹھتی ہیں)۔ ہمارے ملک میں بھی اس کے خلاف باتیں ہوتی رہیں گی لیکن عموماً یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک بار کسی ملک کے نظام میں آمریت کے بیج بو دئیے جائیں تو پھر اسکو جڑ سے اکھاڑنا مشکل ہوتا ہے (سوائے جرمنی کے کوئی بھی اسکا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کر سکا اور اسکی وجہ مالی ترقی ہے شاید، کیونکہ جہاں خوشحالی ہو وہاں آمریت کے لیے جگہ نہیں ہوتی)۔

شاید آپ اور میں وقت کے اس چکر کو مکمل ہوتا نہ دیکھ سکیں لیکن آنے والی نسلیں ضرور دیکھیں گی (لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ دور سنہرا ہوگا)۔ یہ پینڈولم بھی کمزور ہوگا چاہے کتنا ہی کنٹرول کیوں نہ قائم کر لیا جائے لیکن فطرت کے قوانین سے لڑنا بہت مشکل ہوتا ہے انسان اتنا طاقتور ہے نہیں جتنا خود کو سمجھتا ہے، وہ غلطیاں کرتا تھا، کرتا ہے اور کرتا رہے گا، میں نے ایک جگہ ایک قول پڑھا تھا جو ہم انسانوں کے ذہن کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔

"حقیقت میں پھٹا ہوا کپڑا، ذہن میں شاہی چادر"

(In Reality a torn cloth، in Mind a royal cloak)

Check Also

Ghamdi Qarar Dena

By Amirjan Haqqani