Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Smart Wazir e Aala Ba Muqabla Awami Wazir e Aala

Smart Wazir e Aala Ba Muqabla Awami Wazir e Aala

سمارٹ وزیراعلیٰ بمقابلہ عوامی وزیر اعلیٰ

پاکستانی تاریخ کی پہلی چیف منسٹر منتخب ہونے پر مریم نواز اس وقت اخبارات اور سوشل میڈیا میں بہت مقبول ہیں۔ چھوٹے بڑے پیشہ ور کالم نگار، غیر پیشہ ور اور شوقیہ لکھنے والوں نے مریم نواز کو بطور چیف منسٹر درپیش ممکنہ مسائل، عوامی فلاح و بہبود کے لیے مشوروں اور خوشامد سے بھرپور درجنوں کالمز، مضامین اور بلاگز لکھ ڈالے ہیں۔

ایک دہائی سے زیادہ عملی سیاسی تجربہ رکھنے والی مریم نواز کو مشورے ایسے دیئے جا رہے ہیں جیسے کسی بچے کو اُنگلی پکڑ کر چلنا سکھانا ہو، یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ مریم نواز نانی بھی ہیں اور سب نہ صرف جانتے ہیں بلکہ گواہی بھی دیں گے کہ بچپن میں ہماری پرورش، کھانے پینے، سپارہ پڑھنے اور دوا دارو میں ہمارے نانکے ہمیشہ دادکے سے بازی لے جاتے تھے۔ یوں سوچا کہ کیوں نہ بہتی گنگا میں ہم بھی ہاتھ دھو لیں کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا اور مریم نواز کو اپنے تئیں ماڑے موٹے مشوروں سے نواز دیں، کبھی کبھار کھوٹا سکہ بھی تو چل ہی جاتا ہے۔

سیاستدانوں کا سب سے بڑا سرمایہ عوام کی نگاہوں میں ان کا امیج ہوتا ہے۔ امیج میں پرسنیلیٹی، کریکٹر، بہاردی، حوصلہ مندی، افلاطونی سوچ، سیاسی شطرنج کے داؤ پیچ، پریس کانفرنسوں میں سوالات کے دانشمندانہ جوابات، مدبرانہ اور دھیما لہجہ و مزاج، ہمسایہ ملکوں اور عالمی طاقتوں بارے حقیقت پسندانہ تاثرات و خیالات، علاقائی کی بجائے ملکی سیاست میں کردار اور داغے گئے بیانات پر قائم رہنا یا ضرورت پڑنے پر ان بیانات کی مدلل وضاحت کرنا شامل ہوتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے زیادہ تر سیاستدان ان خصوصیات کے حامل ہیں جب کہ ن لیگ میں میاں شہباز شریف، خواجہ آصف، مریم اورنگ زیب اور خواجہ سعد رفیق شامل ہیں۔ حالیہ انتخابات میں خواجہ سعد رفیق نے کمال فراخ دلی اور حقیقت پسندی کا دامن تھامتے ہوئے پی ٹی آئی کے حمایت یافہ سردار لطیف کھوسہ سے شکست کو قبول کیا اور انہیں مبارکباد دی اور بلاشبہ اس عمل سے خواجہ سعد کی عوام میں عزت و احترام میں راتوں رات دن دگنارات چوگنا اضافہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ا نتخابات، جھرلو زدہ نتائج مشہور ہیں۔ یہاں یہ لکھنا بے جا نہ ہوگا کہ جب سے سی ایم صاحبہ نے حلف اٹھایا ہے تب سے سوشل میڈیا پرایک فوٹو وائرل ہوئی جسے "سمارٹ پنجاب گورنمنٹ" کا سرناواں دیا گیا ہے۔

اس فوٹو میں ایک میک آپ شدہ خوبصورت زنانہ پاؤں میں اونچی ایڑھی والی جوتی ہے جبکہ دوسرا پاؤں تسموں والے بوٹ میں مکمل بند ہے شاید شہباز شریف والا بوٹ جو وہ بارشی پانی میں پہنتے تھے یاپھر کوئی اور بوٹ ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے مریم صاحبہ کو چیف منسٹر کے عہدے کی حقیقی حقدار ہونے کے لیے برق رفتاری سے کام کرنے کی ضرورت ہے، عوام کی نگاہوں میں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب منوانے کی ضرورت ہوگی۔

پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کوبلا تفریق سیاست، عوامی خدمت کرنے کی ٹھاننی ہوگی کہ وہ پورے پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں، صرف تاجروں یا صعنتکاروں کی ہی نہیں، رائیونڈ یا ن لیگ کی ہی وزیر اعلیٰ نہیں۔ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ کم اجرتیں جبکہ مہنگائی ساتویں آسمان پر ہے۔ مہنگائی کو کم کرنے کے لیے عملاً ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، لولی پاپ عوام لینے کے لیے تیار نہیں ہیں، خالی باتوں سے بھوکے پیٹ نہیں بھر سکیں گے۔ سیاستدانوں کا عمومی رویہ ہے کہ ملبہ عالمی کساد بازاری پر یا پچھلی حکومتوں پر ڈال کر اپنی کوتاہ اندیشیوں اور بد نیتیوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ حالانکہ قانون سازی بھی ان سیاستدانوں پر مشتمل پارلیمنٹ کرتی ہے اور بدقسمتی سے ان کی قانون سازی بھی مزدور دشمنی پر مبنی ہوتی ہے، اشرافیہ اور ایلیٹ کلاس کی ترجمانی کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کی پارلیمنٹ سے امیدیں بھی دم توڑگئی ہیں۔ یہ خود اپنے بل بوتے پر اپنے معاشی مسائل حل کر رہے ہیں۔ دو کی بجائے ایک روٹی کھا کر، چوپڑی کی بجائے سوکھی کھا کر، شادی بیاہوں میں شرکت سے بچنے کے لیے بہانے بنا کر، دو کی بجائے ایک بتی جلا کر، ڈاکٹر سے چیک آپ کی ببجائے خود ہی گوگل سے ادویات ڈھونڈ کر صحت کی بحالی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ چیف منسٹر صاحبہ کو قانون سازی مرتب کرتے وقت غریب عوام کے مفاد کو مدنظر رکھنا ہوگا اور عوامی فلاح و بہبود پر مشتمل قانون سازی کرنا ہوگی۔ ابھی کل ہی ایک خبر پڑھی کہ ہر گھر سے تین سو سے ڈھائی ہزار روپے ماہانہ تک کوڑا ٹیکس لگانے کی سمری وزیر اعلیٰ آفس کو بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ایسی سمریوں کو پہلی فرصت میں رد کرنا ہوگا تاکہ عوامی چیف منسٹر کا عملی تاثر نمودار ہو۔

پیٹرول قیمتوں نے عوام کو سب سے زیادہ ٹف ٹائم دیا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ برائے نام ہے اور مخصوص روٹس پر چلتی ہے۔ ملازمین کو اپنے دفاتر تک پہنچنے کے لیے پیٹرول کی مد میں روزانہ نصف ہزار روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے جو کہ ماہانہ بجٹ پر کاری ضرب لگارہا ہے۔ بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ سسٹم کو توسیع دی جائے، میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین کے روٹس میں مزید توسیع ان راستوں میں کی جائے جو کہ گنجان آباد ہوں اور مڈل کلاس طبقے پر مشتمل ہوں۔ ضروری نہیں کہ ہر روٹ کی ناک رائیونڈ ہی کی طرف ہو، چاہے انڈر پاس ہوں، چاہے پیدل کراس نہ کی جانے والی چوڑی سڑکیں ہوں یا چاہے رنگ روڈ ہو۔

مزید موٹر ویز بنانے کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ موٹر ویز کے جال نے کسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور زراعت کا "تورا بورا" بنا چھوڑا ہے۔ جہاں بھی یہ موٹر وے گئی وہاں پر لینڈ مافیا آ دھمکا اور کسانوں کی زرعی زمینیں اونے پونے داموں خرید کر ہاؤسنگ سوسائیٹوں کا جن کھڑا کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ فطرت کے برعکس اگر چلا جائے تو ناکامی ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔ شاید پیارے پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے، الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے۔

پاکستان جو بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، اسے فطرت کے قانون کے الٹ صنعتی ملک بنایا جا رہا ہے، پاکستان کی صوبائی قومی زبانوں کو پیچھے دھکیل کر یو پی۔ سی پی وغیرہ جیسی غیر علاقائی زبانوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے۔ گویاپون صدی سے الٹی گنگا مملک خداداد میں بہہ رہی ہے، اسے سیدھا کرنے میں سی۔ ایم صاحبہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ملک فطری اصولوں کی پٹڑی پر چڑھ سکے۔

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi