Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Pakistan Post Par Shab Khoon Marne Ki Koshish

Pakistan Post Par Shab Khoon Marne Ki Koshish

پاکستان پوسٹ پر شب خون مارنے کی کوشش

ایک بے آب و گیاہ جنگل میں خوش قسمتی سے ایک درخت اُگ آیا۔ مسافر اس کی چھاؤں میں سستانے لگے لیکن شیخ چلی کو ان کا یہ آرام پسند نہ آیا۔ وہ حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ ایک دن درخت کی ایک گھنی شاخ پر چڑھا اور اُسے کاٹنے لگا۔ مسافروں نے کہا کیا احمق ہو، یہ کیا کر رہے ہو۔ ایک تو ہمیں سایہ سے محروم کر رہے ہو اور دوسرے جس شاخ پہ بیٹھے ہو، اُسی کو کاٹ رہے ہو۔ شیخ نے جواب دیا تمہارا یہ آرام مجھ سے نہیں دیکھا جا رہا، مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا، میرا ہاضمہ بہت کمزور ہے۔ اتفاق سے مسافروں میں اتحاد پیدا ہوگیا۔ انہوں نے شیخ چلی کو ٹانگ سے پکڑ ا اور نیچے پٹخ دیا اور سایہ کو بچا لیا۔

اس طرح کے شیخ چلیوں نے عوامی اور فلاحی ادارے پاکستان پوسٹ پر شبخون مارنے کی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں اور اس ادارے کی کردار کشی کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان پوسٹ کے چودہ ہزار سے زائد ڈاکخانے اور جی پی اووز ہیں جن میں ارزاں نرخوں پر عوام کی ڈاک، پارسلز، خطوط، وی پی پی، منی آرڈرز ملک بھر کے دور دراز علاقوں میں باحفاظت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ محکمہ ڈاک کے نرخ پرائیویٹ کورئیر کمپنیوں جیسے ٹی سی ایس، ڈی ایچ ایل، ایل سی ایس، او سی ایس وغیرہ سے نصف سے بھی زیادہ کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جی پی اووز اور ڈاک خانوں میں دھڑا دھر خطوط اور پارسلز کی بکنگ دیکھنے میں آتی ہے اگر یقین نہ آئے تو کسی بھی ڈاکخانے یا جی پی او کا ایک گیڑا مار لیں۔

چھپا سکے تو چُھپا اس سے اپنی شادابی
خزاں کو ساری عداوت اسی نشان سے ہے

پاکستان پوسٹ کی خوشحالی شیخ چلیوں سے ہضم نہیں ہو پا رہی اور عوام کی نگاہوں میں اس کی ساکھ کو خراب کرنے کے لیے پاکستان پوسٹ کے نام سے ملتی جلتی جعلی ویب سائٹس بنا کر، کسٹمرز کا ڈیٹا چوری کرکے انہیں موبائل فون پر مسیج بھیجے جاتے ہیں کہ آپ کا پارسل بوجہ غلط پتہ روک لیا گیا ہے، اتنے پیسے آن لائن جمع کروائیں وگرنہ پارسل بھیجنے والے کو واپس بھیج دیا جائے گا وغیرہ۔ اب تک ہزاروں لوگ اس فراڈ سے متاثر ہو چکے ہیں اور اپنی جمع پونجی گنوا چکے ہیں۔ جبکہ پاکستان پوسٹ اس قدر قدامت پسند واقع ہوا کہ اس کی بہت سی سروسز یعنی ملٹری پنشن، سیونگ بینک اور سیونگ سرٹیفیکیٹس وغیرہ شیڈولڈ بینکوں کو دے دی گئیں کہ یہ اپنی سروسز کی ڈیجیٹائزیشن نہیں کر سکا۔ ایسے میں کسیے ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان پوسٹ اپنی ڈاک کی بُکنگ کے نرخ، ڈیوٹی اور ٹیکسز آن لائن وصول کر سکے؟

ہماری دانست میں پاکستان پوسٹ کے نام پر یہ فراڈ ایک باقاعدہ سوچی سمجھی سازش ہے جس میں بینکس، کورئیر کمپنیز، سافٹ وئیر بنانے والی کمپنیز اور پاکستان پوسٹ میں موجود کالی بھیڑیں شامل ہیں۔ کسٹمرز کا ڈیٹا لیک ہونا فراڈ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ڈاک کی بُکنگ کا پروسیجر بھی محفوظ نہیں ہے۔ ڈاک کے لفافے پر بھیجنے اور وصول کرنے والے دونوں کے موبائل فونز کا اندارج تمام کورئیر کمپنیاں بشمول پاکستان پوسٹ کرتا ہے۔ لفافے پر لکھا موبائل نمبر بُکنگ سٹاف بھی جانتا ہے اور دوران ترسیل یہ درجنوں سٹاف اور راہگیروں کی نظروں میں بھی آتا ہے۔ ایسے میں موبائل نمبر اور نام وغیرہ یہاں تک کہ شناختی کارڈ نمبر بھی کسی فراڈیئے کے ہاتھ لگ جانا کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔ کورئیر کمپنیوں کو اپنے کسٹمرز کے ڈیٹا کی سیفٹی کے لیے بُکنگ اور ترسیلی طریقہ کار پر ازسرِ نو غور کرنا چاہیے تاکہ عوام اپنی رقوم سے ہاتھ دھونے سے بچ سکیں۔

اس فراڈ میں سرکار کو بھی استشنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک میں سرکار تو برائے نام ہے اصل اور بڑی سرکار تو آئی ایم ایف ہے۔ اسی کے احکامات کو سر خم تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی بڑی سرکار نے سرکاری محکموں بشمول پاکستان پوسٹ کی پرائیوٹائزیشن کی شرائط رکھی ہوئی ہیں، اسی مالیاتی مافیا کی تجاویز پر بجٹ بنایا جاتا ہے۔ ہماری سرکار تو بس کٹھ پتلیاں ہیں۔ سرکار کو اپنے سرکاری اداروں کو بچانے کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ وہ تو درپردہ چاہتی ہے کہ یہ ادارے جلدی مگروں لئیں تاکہ آقا بھی خوش ہو اور سرکار ہی کے پیٹی بند بھائی صعنتکار اور بینکار اداروں کو خرید کر نیا بزنس شروع کر سکیں۔

زندہ دلان لاہور کے باسی اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول لوئر مال، لاہور سن انیس سو نوے کی دہائی سے قبل پاکستان بھر کا ایک معروف سرکاری تعلیمی ادارہ تھا جہاں ہر سال ہزاروں بچے تقریباً مفت بہترین تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے۔ یہ سکول تمام نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ہمیشہ پہلی تین پوزیشنز لیتا تھا۔ اس زمانے میں پرائیویٹ سکول مافیا نشوونما پا رہا تھا اور چند ایک ہی پرائیویٹ سکول تھے۔

تعلیمی بورڈ کی کالی بھیڑوں سے ملی بھگت کرکے پرائیویٹ سکولوں کے بچوں نے امتحانات میں ٹاپ کرنا شروع کر دیا۔ سرکاری سکولوں کے خلاف اخبارات میں پراپیگنڈہ کا آغاز کر دیا گیا۔ مار نہیں پیار اور اسلامی طرز تعلیم جیسی اصطلاحیں اور سلوگن استعمال کرتے ہوئے سرکاری سکولوں کی عزت و اہمیت کو راتوں رات ملیا میٹ کر دیا گیا۔ سرکاری سکولوں کو بچوں کے ذہنی اور جسمانی ٹارچر سیل سمجھا جانے لگا۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ والدین نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروانا شروع کر دیا اور یہ سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ثابت ہونا شروع ہوا اور ایساعروج ملاکہ آج تک اسے زوال نہیں آیا باوجود اس کے ہر عروج کو زوال ہوتا ہے۔

یہی حال سرکاری ہسپتالوں کا ہوا جس میں ڈاکٹر مافیا نے اپنے پرائیویٹ ھسپتال اور کلینکس کا کاروبار چلانے کے لیے سرکاری ہسپتالوں کا امیج خراب کیا۔ جی ہاں اور یہی صورتحال زرعی ملک کے کسانوں کے ساتھ پیش آئی جب ایوب دور میں صنعتکاروں کو نوازنے کے لیے کسانوں کو بیلنوں اور بھٹیوں سے تتا تتا گُڑ نکالنے، شکر بنانے اور دیسی چینی بنانے سے منع کر دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ کماد کی فصل شوگر ملز کو پہنچائی جائے۔ جن کسانوں نے آقا کی بات نہ مانی، ان کی فصلوں کو جلایا گیا، انہیں جیلوں میں قید کیا گیا اور کار سرکار میں مداخلت کے پرچے کاٹے گئے۔ جونہی گنا کی فصل شوگر ملوں کو ملنے لگی، کسان غربت کی طرف بڑھنے لگا۔ بہت ساگنا شوگر ملوں کے باہر لگے کنڈے کھا گئے یا پھر دھوپ نے کھا لیا۔ اس کے برعکس صنعتکاروں، آڑھتیوں اورتاجروں نے منہ مانگی قیمت پر چینی اور گڑ بیچا اور لکھ پتی سے کروڑ پتی کا سفر شروع کر دیا۔

یہ وہ "بی ہائینڈ دی سین" حالات و واقعات ہیں جن کے تحت پاکستان پوسٹ کے نام پر کیئے گئے فراڈ کو دیکھنا ضروری ہے تاکہ اصل حقائق تک رسائی ہو سکے۔ عوام کو محکمہ ڈاک کے خلاف فراڈ کے تحت کیے جا رہے پراپیگنڈے سے باخبر رکھنے کے لیے محکمہ کو خود آگے آنا چاہیے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام کواس فراڈ کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور ان سے سستی سہولیات چھیننے کی اس کوشش کو ناکام بنایا جائے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ کوئی کسی کا مسئلہ حل نہیں کرتا، مسئلے خود ہی حل کرنے پڑتے ہیں۔ کوئی کسی کی ڈھال نہیں بنتا، ڈھال خود ہی بننا پڑتی ہے۔

سایہ کیسا کمال، ہاتھ اپنا
سَر پہ رکھ اپنے سائباں کی طرح

Check Also

Wardi Ke Shoq

By Saira Kanwal