Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Naqsh Hain Sab Natamam Khoon e Jigar Ke Baghair (1)

Naqsh Hain Sab Natamam Khoon e Jigar Ke Baghair (1)

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر (1)

بیماری اور معذوری اُن بد ترین آفات میں سے ایک ہیں جو انسان پر کسی بھی وقت، کسی بھی لمحے نازل ہوسکتی ہیں۔ دنیا کی تمام آسائشیں، خوشیاں اور راحتیں مل کر بھی ایک بیمار اور معذور شخص کی مصیبت کا بدلہ نہیں ہو سکتیں۔ ایک بیمار کو دنیا بھر کی نعمتوں سے مالا مال کر دیں مگر اس کے باوجود اس کے نزدیک دنیا صرف ایک روگ اور دُکھ کا نام ہوگی۔

دنیا میں ایسے لوگ بھی کم نہیں ہیں جو اپنی معذوری و بیماری سے عظیم فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ پاکستان کی ملالہ یوسف زئی جو طالبان کی گولی لگنے سے جسمانی معذوری کا شکار ہوئیں، امن کا نوبل انعام جیتا۔ میکسیکو کی معروف آرٹسٹ فریدہ کاہلو بس حادثے میں جسمانی معذوری کاشکار ہوئیں، ان کے پینٹگز دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ " اے بریف ہسٹری آف ٹائم" کے خالق برطانیہ کے معروف فزکس سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ جو ایک حادثہ کے نتیجہ میں"موٹر نیوران ڈیزیز" بیماری کا شکار ہوئے اور جس کے نتیجہ میں وہ حرکت نہ کر سکتے تھے، انہوں نے اپنا تخلیقی کام جاری رکھا۔ جرمن موسیقار اور پیانوئسٹ بیتھوون ڈیف تھے۔ امریکہ کی ھیلن کیلر پیدائشی بلائنڈ اینڈ ڈیف تھیں۔

لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ شخصیات تعلیم یافتہ اور مہذب معاشروں سے تعلق رکھتی تھیں جہاں ان کی بیماریوں اور معذوریوں کو ہمارے معاشرہ کی طرح قابلِ تفریح اور قابلِ مذاق و تضحیک نہیں سمجھاجاتا، غیر اخلاقی اور غیر انسانی القابات سے نہیں نوازا جاتا تھا۔ گویا ان شخصیات کو جسمانی تفریق کا سامنا نہیں تھا اور انہیں ایک عام شہری کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ عین ممکن ہے کہ اگر یہی عظیم لوگ ہمارے ملک میں پروان چڑھتے تو معاشرہ کے طعنے مہنے انہیں اس قابل ہی نہ رہنے دیتے کہ اپنی صلاحیتوں کو پروان بخشتے۔ پاکستان میں کئی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی بیماری اور معذوری کو رکاوٹ نہیں بننے دیا، معاشرہ کے دھتکارپن کو نظر انداز کرنے میں کامیاب ہو کر زندگی میں با عزت طریقے سے روزی روٹی کما رہے ہیں۔

قارئین! میں نے عید کی چھٹیوں میں محلے کے ایک رہائشی کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی۔ موصوف عمر کی چالیس سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں اور ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں جو میرے بچوں کے دوست ہیں اور پارک میں شام کو کھیلنے جاتے ہیں۔ موصوف کو کبھی کبھار ہی گھر سے باہر دیکھا ہے جب دفتر آنا جانا ہو۔ یہ صاحب پوسٹ لینگوئل ڈیف نیس میں مبتلا ہیں (بعد از زباندانی بہرہ پن) اور ھیئرنگ ایڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ فیس ٹو فیس تھوڑی اونچی آواز میں ابلاغ کر سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ تفصیلی ملاقات کو قارئین کے لیے ایک انٹرویو کی شکل میں سیکورٹی اور پرائیویسی غرض سے فرضی نام کے ساتھ پیش کر رہا ہوں، جس کے دو حصے ہوں گے۔ پہلا حصہ آج پیش کیا جا رہا ہے۔

سوال: اپنے بچپن اور لڑکپن بارے کچھ بتائیں۔

محمد شریف: میں لاہور میں پیدا ہوا اور یہیں پر تعلیم حاصل کی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہماری فیملی گاؤں جاتی تھی۔ گاؤں کے ماحول اور رہن سہن کو میں نے قریب سے دیکھا اور مجھے بے حد پسند آیا۔ میں بچپن سے ہی کم گو تھا اور صرف کام کی بات کرنے کا عادی تھا۔ گُلی ڈنڈا، ہاکی، کرکٹ، فٹ بال، کیرم بورڈ، شطرنج، باڈی جسے وانجھو کلہ ڈوئی بھی کہتے ہیں، لڈو اور بارہ ٹینی جیسے سب کھیل کھیلے۔ مجھے ہاکی زیادہ پسند تھی۔ میٹرک لاہور کے ایک سرکاری سکول سے کیا۔

سوال: اچانک قوتِ سماعت کا عارضہ کب اور کسے لاحق ہوا؟

محمد شریف: انٹر کے امتحان کے دوران مجھے ٹائیفائیڈ بخار ہوا اور اس قدر شدید تھا کہ امتحان میں مکمل شرکت نہ کر سکا۔ بخار اتر گیا اور زندگی معمول کے مطابق چلنے لگی کہ چھ ماہ بعد گرمیوں کی دوپہر کو میں کمرے میں لیٹا ہوا تھا کہ میری بہن آئی اور کچھ کہا جو مجھے سنائی نہ دیا۔ میں نے استفسار کیا تو اونچی آواز سے کہا کہ گیٹ پر کوئی دروازہ کھٹکٹا رہا ہے، جا کر دیکھوں۔ باہر جا کر دیکھا تو میٹر ریڈر تھے۔ تب میٹر گھروں کے اندر لگتے تھے۔ میٹر ریڈر نے کچھ کہا تو میں نہ سُن پایا اور میں حیران و پریشان کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر میٹر ریڈر نے بلند آوا ز میں کہا کہ میٹر ریڈنگ کرنی ہے تو مجھ سے زیادہ محلے والوں اور دکانداروں اور گاہکوں نے سُن لیا جس سے مجھ میں احساس شرمندگی نے سر اٹھایا اور میری زندگی کا یہ پہلا واقعہ تھا جس پر مجھے ندامت و شرمندگی ہوئی کہ محلے داروں اور دکانداروں سب نے سُن لیا کہ شاید میں بہرا ہوگیا ہوں۔

سوال: آپ کی قوتِ سماعت کو کتنا نقصان پہنچا اور علاج کہاں سے کروایا؟

محمد شریف: آڈیالوجی ٹیسٹ میں میری دونوں کانوں کی قوت سماعت ستر ڈیسی بل تک گری پائی گئی جو کہ بہت زیادہ نقصان تھا۔ ای این ٹی سپیشلٹ ڈاکٹر نے آلہ سماعت تجویز کیا۔ لاہور اور ملتان سے علاج کروایا مگربے سود۔ ہومیو پیتھیک اور ایلوپیتھک تمام علاج آزما ڈالے مگر کوئی بہتری نہ ہوئی بلکہ ہر سال ایک ڈیڑھ فیصد سماعت مزید گرتی رہی اور آج پچانوے ڈیسی بل تک گر چکی ہے اور آلہ سماعت سے بھی کام لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سوال: اچانک اس سانحہ کے وقوع پذیر ہونے پر آپ نے کیا محسوس کیا اور آپ میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں؟

محمد شریف: یہ ایسا سانحہ تھا جس بارے میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ پلک جھپکتے ہی میری کایا کلپ ہوگئی۔ میں اپنے مستقبل اور سماجی زندگی کو تاریک دیکھنے لگا کیونکہ حسیاتی معذوری بہ نسبت جسمانی معذوری کے زیادہ مشکلات پیدا کرتی ہے۔ رشتہ داروں، لوگوں اور دوستوں کے نان سٹاپ مذاق اور الٹے سیدھے القابات کا سامنا کرنا پڑا تو میں نے گھر سے باہر نکلنا ہی بند کر دیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

سوال: گویا آپ نے ہتھیار ڈال دیئے؟

محمد شریف: نہیں۔ ہتھیار ڈالنا نہیں ہے بلکہ یہ حفاظتی اقدامات ہیں۔ جس محفل میں جانے سے ٹھکرائے جانے کا خدشہ ہو، اس محفل میں نہ جانا ہی دانشمندی ہوتی ہے۔ جب کوئی دفتری ساتھی یا دوست مجھ سے مخاطب ہو اور میں پہلی فرصت میں اس کی بات نہ سمجھ سکوں تو مجھے شرمندگی و احساس کمتری و کہتری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ سب ڈبل صورت اختیار کر لیتا ہے جب تخاطب اونچی آواز میں (تاکہ میں سُن سکوں) مجھ سے بات کرے تو ارد گرد کے لوگ بھی کان کھڑے کر لیتے ہیں اور قہقے چھوڑنے لگ جاتے ہیں جیسے کسی پاگل کو سمجھایا جا رہا ہو۔ گویا میرا وجود ان کے لیے باعث مزاح ہے۔ یہ صورتحال میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے جس کا اثر ہفتوں تک میری روح میں ڈیرہ جمائے رکھتا ہے۔ ایسی صورتحال سے مجھے تقریباً روزانہ ہی گزرنا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں میری نفسیاتی، جذباتی اور روحانی صحت تباہ ہونا شروع ہو جاتی ہے، اندر ہی اندر انگارے سلگتے رہتے ہیں، موڈ آف ہو جاتا ہے، کام کرنے کو دل نہیں کرتا، طبعیت میں مایوسی، کم مائیگی در آتی ہے۔

سوال: اس سے تو یہی نظر آتا ہے کہ آپ انتہائی حساس ہیں جو معمولی سے معمولی باتوں کا بھی نوٹس لیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ عدم برداشت میں مبتلا ہے اور سنجیدگی چراغ ڈھونڈنے سے ہی مل سکتی ہے۔ جب آپ نے اسی معاشرہ میں رہنا ہے تو حساسیت کو ختم کیوں نہیں کیا؟

محمد شریف: جی مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ معاشرہ میں رہتے ہوئے اس کے ساتھ مطابقت قائم کیے بغیر اچھے طریقے سے زندگی نہیں گزر سکتی۔ اسی وجہ سے میں نے اپنی حساسیت کو توڑنے کے لیے، اپنے دل کو پتھر بنانے کے لیے ایڈولف ھٹلر، مسولینی، جوزف سٹالن، ضیاء الحق۔۔ جیسے ڈکٹیٹرز کی کتابوں کا مطالعہ کیا، ڈیل کارنیگی کی سیلف ھیلپ سیریز پر مشتمل کتابوں اور دنیا کے انقلاب پسندوں، کمیونسٹوں جیسے چے گویرا، لینن، ماوزے تنگ، کارل مارکس اور شاعروں کی شاعری سے انقلابی اشعارڈھونڈ کر کو بطور خاص ڈائری میں لکھے لیکن حساسیت جوں کی توں رہی، ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں۔ شاید یہ ہے کہ انسانی فطرت کبھی نہیں بدل سکتی!

(جاری ہے)

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi