Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Jungle Ka Qanoon

Jungle Ka Qanoon

جنگل کا قانون

گذشتہ دنوں عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں نہ آئین کی حکمرانی ہے نہ قانون کی اور نہ ہی جمہوریت کی۔ ملک میں جنگل کا قانون ہے۔ جنگل کے قانون کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جنگل کا قانون کیا ہوتا ہے اور کیا واقع ہی پاکستان میں جنگل کا قانون ہے؟ اگر ہے تو حکمرانوں، ان کے ایجنٹ میڈیا، مذہبی علماء اور نصاب سازوں کو یہ کیوں نظر نہیں آ رہا؟

جنگل کے قانون سے مراد یہ کہ ایسا ملک جہاں پر نہ کوئی قانون ہو اور نہ ہی کوئی ضابطہ۔ ہر شخص اپنی مرضی کرنے کا خواہشمند ہو، غلط درست، اچھا بُرا، انسانی غیرانسانی کچھ بھی نہ دیکھے اور محض اپنی خواہش، اپنی حرص، اپنی بات، اپنے ذاتی عزائم کی تکمیل کے لیے شعوری اور لاشعوری دونوں طرح سے بغیر دیکھے بھالے، سوچے سمجھے اندھا دھندطاقت کا استعمال کرے۔

جنگل کے قانون والا معاشرہ ہر طرح کی سماجی، اخلاقی اور معاشی برائیوں میں جکڑا ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے میں رشوت خوری، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، لوٹ مار، چوری ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، جنسی ہراسگی، زنا بالجبر، غیرت کے نام پر قتل، کاروکاری، وٹہ سٹہ کی شادیاں، سمگلنگ، دھوکہ دہی، ٹھگی، فراڈ، فرقہ واریت، دہشتگردی، قتل و غارت، بوری بند لاشیں، بھتہ خوری، لینڈ مافیا کا غریبوں کی جمع پونجی ھڑپ کر جانا، ٹارچر سیل، نجی عقوبت خانے، کرپشن، تنگ نظری اور تعصب۔۔ ہر گلی، ہر چوک، ہر محلے، ہر سڑک، ہرادارے میں عام ہوتی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا دور دورہ ہوتا ہے۔

قائداعظم کی ایمبولینس کاخراب ہونا، لیاقت علی خان کا قتل، فاطمہ جناح کی کتاب ' مائی برادر' میں جناح کے آخری ایام کے دنوں کے حیران کن انکشافات اور انہیں حکومتی سطح پر سینسر کرنا، بھٹو کا عدالتی قتل، ضیاء الحق کا سیاسی کارکنوں پر ظلم و تشدد اور غیر انسانی ٹارچر سیل کا لمبا دور، کراچی میں بوری بند لاشوں کی ایک طویل داستانِ غم اور ٹارگٹ کلنگ، دخترِ مشرق کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا قتل، بینظیر بھٹو کا قتل، نواب اکبر بگٹی کا قتل، میاں نواز شریف اور بینظیر کی حکومتوں کی معزولی، سانحہ ساھیوال، قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے دل دہلا دینے والے واقعات، اقلیتوں کے لیے زمین کا تنگ ہونا، سانحہ جڑانوالہ، مذہب کی آڑ میں بیگناہوں کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانا، پولیس کی غنڈہ گردی، سرکاری اداروں میں کرپشن، پولیس گردی، عدالتوں کا سیاسی شخصیات کے لیے راتوں کوکھلنا جبکہ غریب عوام کے مقدمات کا دہائیوں تک فیصلہ نہ ہونا، بہاولنگر واقعہ، اظہار رائے پر پابندی، سوشل میڈیا پر پہرے اور ملک میں جمہوریت کی بجائے آمریت کی طویل ترین تاریخ۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب حقائق واضح کرنے کو کافی ہیں کہ عمران خان نے غلط نہیں کہاکہ ملک میں جنگل کا قانون ہے۔

حقیقت ہمیشہ حقیقت رہے گی
کبھی بھی نہ اس کا فسانہ بنے گا

آخر یہ جنگل کا قانون کب تک جاری رہے گا؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ ختم ہونے کی بجائے مزید پھلتا پُھولتا ہی کیوں جا رہا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جنگل کے قانون کی بنیادی وجہ ہمارا بے تُکا، بے ڈھنگا، لایعنی اور غیر ضروری پندونصائح پر مشتمل تعلیمی نظام ہے اور ایسا نظام بذات خود جنگل کے قانون کی حوصلہ افزائی اور خردپسندی کی حوصلہ شکنی کے لیے بیوروکریسی نے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی مرتب کر دیا تھا۔ تاریخ کو اُلٹا کرکے بچوں کو حرف آخر سمجھ کر پڑھایا جاتا ہے۔

غور و فکر اور رائے دہی کو اساتذہ کے احترام کے کھوہ کھاتے میں ڈال کر بچوں کی سوچوں پر پہرے بٹھادیئے جاتے ہیں۔ سوال کرنے والے بچوں کو مطئمن کرنے کے لیے درشت لب و لہجہ میں جواب دیا جاتا ہے تاکہ آئندہ بچے سوال کرنے سے پہلے دو بار ضرور سوچیں۔ ہمارا نصاب ہندو مسلم دشمنی اور کافر و جہاد کے گرد ہی شروع ہوتا ہے اور یہی ختم شد ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مکان کی بنیاد سیدھی ہو تو منزل درست بنتی ہے اور اگر بنیاد ٹیڑھی ہو تو منزل کے درست بننے کا خیال پالنا خام خیالی ہوتا ہے۔ پاکستان کا تعلیمی بندوبست ایک ٹیڑھی بنیاد ہے اور یہی وجہ کہ جنگل کا قانون ختم ہونے کی بجائے مزید پنپ رہا ہے۔

کئی حکومتیں آئیں، کئی ڈکٹیٹر آئے، قوانین بنے، ترمیمیں ہوئیں، مگر عوام کی حالت بجائے بہتر ہونے کے مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ مڈل کلاس کے لیے نہ کھانے کو روٹی ہے نہ بچوں کو کھلانے کے لیے پھل فروٹ خریدنے کی سکت باقی بچی ہے۔ بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ ادویات، ٹیسٹ، فیسیں، یوٹیلیٹی بلز نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ لیکن نیرو چین کی بانسری بجائے جا رہا ہے، مشکل وقت کے گزر جانے کا لالی پاپ دے رہاہے۔ یہ کیسا لالی پاپ ہے جو پون صدی سے عوام کو دیا جا رہاہے۔ کبھی حب الوطنی کے نام پر، کبھی دفاع کے نام پر، کبھی عالمی سطح پر مہنگائی کے نام پر، کبھی ایک قوم ایک زبان کے غیر عقلی نعرے پر، کبھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اور کبھی سیلاب، زلزلوں کے بہانوں پر عوام کو افیم کی گولی دی جا رہی ہے جو کہ وہ لے بھی رہے ہیں کیونکہ ان کی شروع سے ہی برین واشنگ کر دی ہوئی ہوتی ہے۔

اگر کوئی افیم کی یہ گولی لینے سے انکارکر دے اور مسائل کا تجزیہ کرکے درست حقائق بتاتے ہوئے کہے کہ پاکستان وہ مقاصد حاصل نہیں کر پایا جس کے لیے اس کا قیام معرض وجود میں آیا تھا تو اسے غدار وطن او ر ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے اس دھونس کے ساتھ کہ پاکستان کو ناکام ریاست کہنے والے بھارتی ایجنٹ ہیں، انہیں سولی پر ٹانگ دینا چاہیے۔ جبکہ حقیقت میں یہ خود مٹھی بھر بیوروکریسی اور اشرافیہ سولی پر ٹانگے جانے کے قابل ہے کہ صرف انہی کے دن پھرتے ہیں۔ ایک طرف یہ حب الوطنی کاڈھنڈورا پیٹ کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں جبکہ دوسری طرف ریٹائرمنٹ کے بعد یہ طبقہ خود ٹھنڈے ٹھار ملکوں میں فیملی سمیت شفٹ ہو جاتا ہے۔ ایک طرف یہ عوام سے مہنگائی کی قربانی مانگتے ہیں تو دوسری طرف ان کی عیاشیوں میں کوئی فرق نہیں پڑٹا۔ یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے؟

ہماری دانست میں مسائل کا منبہ وہی گروہ ہے جس نے قیام پاکستان کے وقت ہی تمام انتظامی و بندوبستی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا، جس نے پاکستان کی قومی زبانوں پر غیرملکی زبان کو چوکیدار بنا ڈالا۔ ا س گروہ کو ہٹا کر عوام خود اسکی جگہ پر ڈیرے لگائے گی تو ہی پاکستان میں عام آدمی کے دن پھرنے شروع ہوں گے۔ لیکن اس کے لیے ابھی کئی دہائیاں درکار ہوں گی کیونکہ نہ صرف تعلیمی سسٹم، بلکہ میڈیابھی اسی غیرعلاقائی نان سیکٹر ایکٹر گروہ کا ہے۔ اخباری کالمز میں بھی اسی ٹولے کے درجنوں صحافی اپنی فیمی گولیاں عوام کو پڑھنے کو دیتے ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان کی لفافہ صحافت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کئی صحافی ایسے بھی ہیں جن کے کالموں کو پاکستان میں بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے۔

ہم نے بھی چند سال قبل ان کے کالمز کو پڑھا لیکن فوری طور پر ترک کر دیا کہ ہمیں بروقت معلوم ہوگیا کہ یہ فیم کی گولی کو سنہرے کاغذ میں لپیٹ کر عوام کو دے رہے ہیں، کبھی اسلام کے نام پر، کبھی مقدر کے نام پر، کبھی قوم کے نام پر، کبھی ہندوواتا کے نام پر، کبھی غیر ت و حمیت کے نام پر، کبھی سفید پوشی کے بھرم کے نام پر، کبھی تیسری دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کے حوالے دیکرعوام کو اپنی غریبی پر، اپنی ڈانواں ڈول صحت پر، اپنی بیروزگاری پر، اپنی غذائی کمی پرصابر و شاکر رہنے کی تبلیغ کرتے ہیں اورانقلابی مائنڈ سیٹ تیار نہیں ہونے دیتے، عوام کو اصل شعور تک رسائی دینے کی راہ نہیں دیتے۔ یہ مافیا عوام کی حالت زار بدلنے میں کرتا دھرتا کی بی ٹیم کا کام کر رہا ہے۔ ایسے ٹولے کو باہر نکالے بغیر عوام کے دن پھرنے والے نہیں۔

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed