Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Chanad Mari

Chanad Mari

چاند ماری

جب بھی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس دیکھتے ہیں۔ تو اس پر چاند ماری کرنے کو دل کرتا ہے۔ بچپن میں چندا ماموں کی لوری سنتے تھے۔ بڑے ہوئے تو چاند پر پہلا قدم کس نے رکھا؟ اس سوال کا جواب یاد کرتے رہے۔

شاعر حضرات کوچاند پر چاند ماری کرتے ہوئے بہت بار پڑھا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ہر کسی کا اپناایک چاند ہوتا ہے۔ ہم صرف ایک چندا ما موں پر اکتفا کئے بیٹھے تھے۔ جو شاعر حسن ذوق رکھتے تھے انہوں نے چاند کو ایک الگ روپ میں پیش کیاہم بھی کافی عرصہ اسی مغالطے میں رہے کہ چاند کے حسن کے سامنے سب ہیچ ہیں۔ پھر یہ عقدہ کھلا کہ چاند تو خود کسی کی روشنی کا محتاج ہے۔ چاند کو اگر اصل حالت روپ میں دیکھ لیا جائے تو سارا رومانس رفو چکر ہو جائے۔ بچپن میں چاند کے بارے میں بہت سی کہانیاں منسوب تھیں۔

اس میں زیادہ مشہور تھا کہ ایک بڑھیا چرخہ کاتتی دیکھی جا سکتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر بظر نظر دیکھنے سے ایسا ہی محسوس ہوتا تھا۔ آج کی نئی پود شاید چرخہ کے نام اور کام اور شکل کے بارے میں نا بلد ہے سو اس کو یہاں تک ہی رہنے دیتے ہیں۔ ذاتی تجربہ میں چاند کو جب بھی دیکھا ذہن میں جو کوئی تصور قائم کیا ویسی تشبیح محسوس ہوئی ہمارے قومی شاعر کی ایک تصویر جس میں وہ پنسل ہاتھ میں لئے کسی گہری سوچ میں مدغم دیکھائی دیتے ہیں۔ ویسی شبہیہ بھی چاند میں نظر آتی ہے۔ واللہ عالم با لصواب

رومانویں انسانوں کے لئے چودیویں کے چاند سےالگ ہی انسیت ہوتی ہے۔ چودیویں کےچاند کی اٹھان دیکھنے والی ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ دیر سے نمودار ہوتا ہے تو پنجابی میں کہتے ہیں"کہ چند اج گوڈی مار کے نکلیا"

اس ساری تمھید کا مقصد کہ چاند کاہماری زندگی میں عمل دخل رہا ہے۔ اس کی اہمیت دو چند اس وقت ہو جاتی جب عید کا چاند دیکھنے کے لئے رویت ہلال کا اجلاس شروع ہوتا کیمروں کا سیشن چل رہا ہوتا ہے۔ پوری قوم چند لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنی بیٹھی رہتی ہے۔ مرد مومن مرد حق کے اور بہت سے کارنامے ہیں ان میں ایک یہ کارنامہ بھی ہے کہ مستقل رویت ہلال بنا دی شاید علماء حضرات کی اس وقت خوشنودی مقصود تھی۔ پر وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اب یہ اجلاس اور افراد آنکھوں اور ملکی معشیت پر بھاری محسوس ہوتے ہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے ہم ابھی بھی چاند کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔

پچھلی حکومت میں ایک سائینسی وزیر نے بہت اچھی کاوش کی تھی اس کاوش کو عملی شکل دینی چاہئے۔ تا کہ ہم جو ہر بار تشکیک میں رہتے کہ عید تھی یا روزہ تھا اس سے نکل سکیں۔

سابق چئیر مین رویت ہلال کمیٹی نے مدلل دلائل چاند کو دیکھنے کے حوالے سے دئیے تھے۔ شاید ابھی بھی وہ اس پر کار بند ہیں یا رجوع کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے۔

میری ناقص رائے میں جب ہم نماز کا وقت گھڑیاں دیکھ کر ادا کرتے ہیں۔ تو کیوں ہم ان جدیدآلات سے چاند کی پیدائش اور اس کے ظہور کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اور ملک میں دو عیدین اور گو مگو کی کیفیت کو ختم نہیں کر سکتے؟

جب ہم حج اور دوسرے اسلامی معاملات میں سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم انہی کے کیلنڈر کو حتمی تسلیم کر لیں۔ یہ جو ملک کا پیسہ چاند دیکھنے کی کمیٹی پر خرچ کرتے ہیں اس سے بچ سکیں۔ آجکل سوشل میڈیا پر اس خرچے کا حساب کتاب بھی کافی شدو مد سے شئیر کیا جا رہا اس میں کیا حقیقت کیا افسانہ کوئی صاحب الرائے ہی اس پر روشنی ڈال سکتا ہے۔

آخری بات یہ سب باتیں پتہ نہیں کیوں مجھے چاند گاڑی (چنگچی)پر سفر کرتے ہوئے یاد آئیں۔ سو چاند ماری کی۔۔

Check Also

Huqqe Walay Dost

By Javed Ayaz Khan