Zille Shah Nahi Jamhuriat Ki Lash
ظلِ شاہ نہیں جمہوریت کی لاش
کس قدر افسوس کا مقام ہے۔ کس قدر دکھ کی ساعت ہے۔ ایک انسان چند لمحے پہلے سانس لیتا، جیتا جاگتا نام نہاد "ماں جیسی ریاست" کی تحویل میں گیا اور چند لمحوں کے بعد اس ریاست نے اسے پیدا کرنے والی بوڑھی ماں کے حوالے کر دیا اس حالت میں کہ جسم پر سفاکیت اور بربریت کی 37 ایسی مہریں تھیں جنہوں نے یہ بات یقینی بنائی کہ نام نہاد ریاست ماں سے حقیقی ماں کے پاس جائے تو لاش کی صورت۔ اسکے باقی ماندہ بڑھاپے میں ایک کاش کی صورت۔
یاد رہے کہ یہ وہ ریاست ہے جو کبھی اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اذیت ناک ترین موت سے دو چار کرنے والوں سے مزاکرات کرتی ہے کبھی کسی حملہ آور دشمن پائلٹ کو چائے پلا کر واپس بھیجتی ہے اور کبھی انہی کے ایک ایجنٹ کو پکڑ کر باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اسے عالمی عدالت میں پیش ہونے کا حق دیتی ہے۔ لیکن وہ ریاست اپنے ملک کے باسیوں کو اپنے کرتا دھرتاؤں سے سیاسی، مذہبی، فکری اختلاف کی سزا اذیت ناک ترین سزائے موت کی صورت میں دیتی ہے۔
سہیل وڑائچ صاحب نے کہا تھا عمران خان تو اپنے ماننے والوں کے لیے دیوتا ہے۔ خورشید ندیم صاحب نے لکھا کہ عمران خان اپنی ذاتی سیاسی عصبیت قائم کرنے میں اب کامیاب ہو چکے۔ کوئی انکے جانثاروں کو "فین کلب" لکھتا ہے تو کوئی اسے "کلٹ" کہتا ہے۔ بحرحال ایک سامنے کی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی سیاست نے کیا شاید دنیا کی سیاست نے یہ مناظر نہیں دیکھے کہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو لے کر رات گئے بنی گالہ سے زمان پارک تک اپنے رہبر کی ڈھال بننے کے لیے پہنچ جائیں (یاد رہے کہ طالبعلم اس طرزِ فکر و عمل کا حامی یا معترف نہیں )۔
راقم الحروف اسے ایک اور نگاہ سے بھی دیکھتا ہے کہ اس سماج میں صرف پیٹ کی بھوک نہیں ذہن کی بھوک بھی ہے۔ میری نگاہ میں"فلاں تیرے جانثار۔ بے شمار بے شمار" کا نعرہ وہیں لگ سکتا ہے جہاں یہ دونوں قسم کی بھوک بدرجہِ اتم موجود ہوتی ہے۔ یہ نعرہ اس سماج میں مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے لیے لگتا ہی رہتا ہے۔ اور جب تک یہ بھوک موجود ہے لگتا ہی رہے گا ورنہ انسانی جان پاکستانی سیاست جیسی بے ثبات شے کے لیے نثار کرنا اس جان کی کفرانِ نعمت ہے۔
آنکھوں دیکھا حال یہ ہے کہ پیٹ اور ذہن دونوں کی بھوک کا شکار تمام سیاسی جماعتوں میں"گاؤں کے کمیوں" کی طرح بھرتے جاتے ہیں۔ مگر جمہوریت کس بلا کا نام ہے کیا بڑے بڑے ایوانوں میں تقاریر کے لیے جوشِ خطابت کا؟ جی نہیں ایک طرزِ فکر کا ایک سوچ کا مخالف نقطہِ نظر پر برداشت کا اور اختلاف رائے کے سنگ امن و امان کے ساتھ رہنے کا۔ جب سیاسی زمینی حقائق سے انکار کیا جاتا ہے تو زمینی حقیقت بنگال سے بنگلہ دیش بن جاتی ہے۔
میاں نواز شریف صاحب کی "ووٹ کو عزت دو" تحریک کے دوران بھی ایک ایسا کردار بہت مشہور ہوا تھا۔ یہ سینے پر میاں صاحب کی تصویر والی شرٹ پہن کر اپنی محبت کا اظہار ان سے کرتا تھا۔ ایک تقریب میں اس نے سیکیورٹی کا حصار توڑ کر میاں صاحب سے سلام لینے کی کوشش کی تو میاں صاحب نے ہاتھ پیچھے کھینچا مریم بی بی کی چیخ نکل گئی اور سیکیورٹی والوں نے پکڑ کر کیمروں کے سامنے اسکی دھنائی کر دی۔
اسی طرح کا ایک کردار بے چارہ علی بلال مرحوم عرف ظلِ شاہ خان صاحب سے اپنی محبت کا اظہار کرتے کرتے سفاک ترین موت کی گھاٹیوں میں پہنچا دیا گیا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ یہ کیا ریاست ہے اور اس پر کیا نظامِ حکومت و طرزِ حکمرانی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان جو ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے وہ آئین کے مطابق حکم دیتی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 دن کے اندر کروائے جائیں۔
ملک کی ایک سیاسی جماعت پنجاب کے دارلحکومت میں ایک ریلی نکالتی ہے ایک نگران حکومت جسکا کام ہی ملک میں الیکشن کروانا ہے اسکے زیر انتظام پولیس جسکا کام اس ساری الیکشن کمپین کا سہولتکار بننا ہے اسکے اہلکار ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ گاڑیوں کے شیشے توڑتے ہیں لاٹھیاں برساتے ہیں اور آبی توپوں کے ذریعے اس سیاسی اجتماع کو منتشر کرتے ہیں۔ یہاں تک تو چلو جسکی لاٹھی اسکی بھینس مگر افسوس صد افسوس کہ ایک انسانی جان۔
نگران پنجاب حکومت کے وزیر عامر میر صاحب کی شاہ زیب خانزادہ صاحب کے پروگرام میں اس افسوسناک واقعے پر انتہائی جانبدارانہ گفتگو نہ صرف انکے غیر جانبدار آئینی منصب کی خلاف ورزی ہے بلکہ ریاستی پالیسی کا بھی پتا دیتی ہے۔ ورنہ پولیس بھی ہماری ہے اور ہم میں سے ہے سیاسی ورکرز میں خود سے یہ اذیت ناک ترین موت کیونکر بانٹے گی۔ آئینِ پاکستان کی بجائے طاقت کے مراکز میں مسند نشیں افراد کی پسند ناپسند کے تابع ریاستی پالیسی نے ہی پاکستان کا یہ حال کیا۔ خدارا فیصلہ ساز مل بیٹھیں اور اپنی اناؤں کے بتوں کی مٹی گوندھنے کے لیے عوامی خون استعمال نہ کریں۔
اسے کس طور جمہوریت کہا جائے کہ جب جمہوریت کی روح انتخابات یوں ہوں کہ جن ٹانگوں پر چل کر ووٹ دینا ہے وہ ٹانگیں توڑ دی جائیں۔ جس انگوٹھے پر سیاہی لگنی ہے اسکو یوں توڑا جائے کہ فنگر پرنٹس مسخ ہو جائیں جن آنکھوں نے اپنا امیدوار اور انتخابی نشان دیکھنا ہے انہیں اندھا کر دیا جائے۔ جمہور کے جسم پر 37 دردناک ترین زخموں کے ساتھ یہ ظلِ شاہ کی نہیں جمہوریت کی لاش ہے کیونکہ لاشیں ووٹ نہیں ڈالتیں۔
پسِ تحریر! اتنا زہر بھرا ہے اس سماج میں کہ جہاں لاہور کشیدگی کی ایف آئی آر عمران خان پر کاٹ دی گئی وہاں مخالف جماعتوں کے سیاسی ورکرز ظلِ شاہ کی دردناک ہلاکت پر پولیس اور نظمِ ریاست کی بجائے عمران خان پر طنز و تبرہ فرما رہے ہیں۔ یہ زہر آلودگی افسوسناک ہے۔ انسانی جان کا تقدس و حرمت سیاسی وابستگی جیسی ارزاں شے سے بہت ارفع ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور انسانیت کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہوتی ہاں ہر سیاسی جماعت میں انسانیت ضرور ہونی چاہیے۔ طالبعلم ہر سیاسی ورکر کی جان، مال، عزت کے تقدس کو ریاست کے لیے ایک سا سمجھتا ہے۔ ظلِ شاہ کی خدا مغفرت کرے۔