Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Seema Haider Ne Kya Yaad Dila Diya

Seema Haider Ne Kya Yaad Dila Diya

سیما حیدر نے کیا یاد دلا دیا

ریلوے کالونی خواب نگر (ملکوال) میں ایک لڑکا ہوا کرتا تھا۔ اسے ایک جانور کے نام سے پکارا جاتا تھا جسے میں لکھنا نہیں چاہتا۔ اسکے والد صاحب نچلے درجے کے ایک ریلوے ملازم تھے۔ بہن بھائیوں کی تعداد کوئی پانچ چھ تو تھی ہی۔ غیر انسانی رویوں کا عالم دیکھیں کہ ہم دونوں بھائی شاید کالونی میں واحد تھے جو اسے اس جانور کے نام سے نہیں بلکہ اسکے اصل نام سے پکارتے تھے لیکن اب وہ نام مجھے یاد نہیں ہاں جانور کا نام یاد ہے۔ ناچیز کی تحریروں میں"خاکزاد" کا نام تو پڑھا ہی ہوگا آپ نے۔ یہاں بھی سہی۔

بچپن کے بہت سارے ایسے کردار یاد ہیں جو ہمہ وقت تمسخر کا نشانہ بنتے تھے۔ کبھی جی چاہتا ہے کہ ایک ایک کے متعلق لکھوں۔ لفظوں کے پھاہے پر روشنائی کا مرہم رکھ کر ماضی کے زخم بھروں۔ خاکزاد بھی ان میں سے ایک تھا۔ اسکے ہر وقت مزاق کا نشانہ بننے کی وجہ اس گھرانے کا سیاہ فارم ہونا تھا۔ تب جمعے کی چھٹی ہوتی تھی۔ خاکزاد کو ہماری طرح کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ یہ صبح سویرے نہا دھو کر سر میں تیل لگا کر ایک سائیڈ سے مانگ نکال کر بھاگتا ہوا آتا۔

کوئی اسکی رنگت کا مزاق اڑاتا کوئی اسکی مانگ کا تو کوئی اسکی شکل کا۔ ٹیم "ملھکتے" ہوئے اسے آخر میں بچ جانے کی صورت میں استہزائیہ انداز میں ساتھ ملایا جاتا اور اس جانور کے نام سے پکارا جاتا تو ایک قہقہہ گونجتا۔ وہ بھی شرمندہ سا ہو کر کھسیانی ہنسی ہنسنے لگتا۔ اسے کوئی بیٹنگ بالنگ نہیں دیتا تھا۔ لاسٹ مین کی صورت میں وہ آیا کرتا تو اسے سنگل لے کر دوسرے اینڈ پر کھڑے "انسان" کو کھلانے کا کہا جاتا تھا۔

مجھے یاد ہے ریلوے سکول میں کچھ اساتذہ بھی خاکزاد کو اسی نام سے پکارا کرتے تھے۔ ہر طرح کی تضحیک کا نشانہ بننے کے باوجود وہ انسانوں کے ساتھ انکی دوڑ میں شامل تھا کہ ایک دن وہ صبح آئی جب اسکی زندگی واقعی اس جانور کی زندگی بن گئی جس کے نام سے اسے پکارا جاتا تھا۔ مجھے وہ صبح اچھی طرح یاد ہے جب پوری ریلوے کالونی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جب ایک خبر جنگل میں آ گ کی طرح پھیل گئی کہ خاکزاد کی ماں بھاگ گئی ہے۔ عملی دنیا سے دور کھڑے ہم دونوں بھائیوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ بھلا ایک ماں کیسے؟ مطلب۔۔ خاکزاد کی امی۔۔ کہاں چلی گئیں؟ یہ ہو کیسے سکتا ہے؟

بحرحال وہ ٹوٹ گیا۔ وہ انسانوں کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ جمعہ کے روز اب اس گلی سے تیل کنگھی کرکے سفید (خون) "انسانوں" کے تمسخر کے تیروں سے گھائل ہونے کوئی "جانور" نہیں آتا تھا۔ اب خود پر پڑتے اونچے اونچے قہقہقوں میں بھیگی بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنی ہنسی شامل کرنے کوئی نہیں آ تا تھا۔ وہ سکول بھی چھوڑ گیا۔ سارا دن کوارٹر میں گزارتا۔ سوکھ کر کانٹا ہوگیا خاکزاد۔

شام ڈھلے کبھی کبھار سر جھکائے ریلوے کلب کی دیوار کے ساتھ ساتھ کہیں جاتا دکھائی دیتا تو پلکیں نم ہوتیں اسکے لیے۔ پھر وہ لوگ چند ہی دن میں وہاں سے چلے گئے۔ وہ جسکو خدا کی دی ہوئی شکل وصورت اور رنگت اور اسکی خدائی کی دی ہوئی تضحیک نہ توڑ پائی اسے ممتا کی بے وفائی نے پاش پاش کر دیا۔ ماں کی کوکھ سے بچہ جنم لیتا ہے اسکی ممتا کی کوکھ سے وفا، اسی وفا کے پیروں تلے جنت ہے۔ وفا کو جنم دیتی ممتا کی بے وفائی ماں کی ممتا کی توہین ہے۔

یاداشت کے نہاں خانوں میں یہ قصہ سیما حیدر نے سیما ساچن بن کر تازہ کر دیا۔ ایک عورت جس نے ایک پاکستانی مرد حیدر سے کورٹ میرج کر رکھی تھی وہ اسکے اور اپنے چار بچوں کو لے کر اپنے پب جی ہیرو ساچن کے پاس بھارت پہنچ گئی۔ ایک انٹرویو میں اسکے بچے "ہندوستان زندہ باد" کے نعرے لگا رہے تھے تو اینکر نے پوچھا یہ کس نے سکھائے ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ تو اینکر نے سوال کیا کہ پاکستان زیادہ اچھا لگتا ہے یا بھارت۔ تو ایک بچی کہنے لگی پاکستان جبکہ بڑا بچہ کہنے لگا ہندوستان۔ جی ہاں یہی مستقبل ہے ان بچوں کا۔ اپنی پہچان کے بحران میں زندگی کٹے گی اب انکی۔

ماں کے تشخص کے تابوت میں آخری کیل سیما نے اس وقت ٹھونکا جب واپس پاکستان جانے کے سوال کے جواب میں سیما نے کہا کہ وہ بچوں کو بھیج دے گی مگر خود کبھی نہیں جائے گی۔ میری نگاہ میں یہ ایک عورت کا سب سے افسوسناک روپ ہے۔ یہ قضیہ اپنے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیے جانے کے سنگ ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ حاضر ہوتا ہوں۔

پسِ تحریر! نہ جانے خاکزاد کی کہانی کا کیا بنا اور نہ جانے یہ بچے کب اور کیسے خاکزاد بنیں گے۔ عجیب کتھا ہے زندگی۔

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib