Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Samaj

Samaj

سماج

ممتا اور محافظ اخلاص کے بندھن میں بندھ گئے جسے نکاح کہتے ہیں۔ نکاح کی تقریب سادگی سے انجام پائی۔ مہمانوں کی تواضع کھانے میں ایک مشہور سوغات، "حلالیہ" سے کی گئی۔ نکاح کے بعد دونوں ایک مکان میں منتقل ہو گئے جسے محنت کی مٹی سے ہمت کے پسینے میں گوندھ کر مشقت کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ اس پر عزم کی چھت ڈالی گئی تھی۔ اس مکان کو ابھی گھر بننا تھا۔ گھر کا ادارہ۔

ممتا محافظ کا عشق تھی۔ محافظ نے زمانے سے اپنے عشق کا معرکہ لڑ کر ممتا کو اپنے نام کیا۔ عشق وقت پر زمانے سے نہ لڑ پائے تو زندگی بھر خود سے لڑتا رہتا ہے۔ اس مکان میں سوچ کی روشنی کے قمقمے پہلے سے روشن تھے مگر ممتا یہاں داخل ہوئی تو اب مصنوعی روشنیوں کا کیا کام۔ وہ بجھے تو اسکی کرنیں جھلملانے لگیں۔ محافظ نے یہ مکان خصوصی طور پر ممتا کے لیے بنایا تھا تاکہ وہ اسے گھر بنا سکے۔

اخلاص کے بندھن میں بندھنے کے بعد ممتا اور محافظ کی محبت یہاں پنپنے لگی تو درودیوار زندگی کے احساس کا گہوارہ بننے لگے۔ یہ مکان کے گھر بننے کی بنیاد تھی۔ ایک سرد رومانوی شام میں ممتا نے محافظ کے کاندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا کہ نام کی ممتا اور محافظ ہونا کافی نہیں میرے محبوب۔ محافظ نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ممتا تم سے ازل کا عشق صرف تمہارے ظاہری حسن کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ تمہارے باطن میں اپنے نام کی لاج رکھنے والی ممتا دیوی کی وجہ سے ہے۔

ممتا نے اپنی چراغوں جیسی آنکھوں کی لو کو پھڑپھڑاتے ہوئے کہا مجھے بھی آپ سے محبت اس محافظ دیوتا کی وجہ سے ہے جو آپکے عقائد میں بستا ہے مجھے اسی نے فتح کیا ورنہ ظاہری طور پر تو آپ بس، ایویں ہی ہیں۔ یہ کہنا تھا کہ دونوں کا قہقہہ ایک ساتھ گھر میں کھنکنے لگا۔ مکان، گھر تب ہی بنتے ہیں جب دیواروں کے کان مرد و زن کے قہقہے اور آہیں اکٹھے سنتے ہوں۔

دونوں اکثر اس پر گفتگو کرنے لگے کہ انہیں ماں باپ بننے کے لیے پہلے سوچ بچار کرنی ہے۔ دونوں کا اس پر مکمل اتفاق تھا کہ اولاد محض دو جنسوں کے وصال کے نتیجے میں انسانوں کی حادثاتی پیدائش کا نام نہیں بلکہ دو روحوں، دو دلوں اور سب سے بڑھ کر دو سوچتے ذہنوں کے ملن کے نتیجے میں جنم لینے والے سماجی معماروں اور قومی کرداروں کا نام ہے۔

دونوں ایک دوسرے کو پوچھتے اور بتاتے رہتے کہ کیا ہم خدا کی اسکیم برائے تخلیقِ انسانی کے لیے کائنات کے سب سے اہم دو سماجی عہدوں یعنی ماں اور باپ بننے کے لیے تیار بھی ہیں جن پر محض اولاد کی بنیادی ضروریات پوری کرنے ہی کی فرضیت نہیں بلکہ ساتھ ساتھ انکے رول ماڈل بننے کی ذمہ داری بھی ہے۔ ممتا نامی آغوش میں محافظ کے حفظ کے حصار میں ایک قوم پروان چڑھتی ہے۔

پھر ایک دن خدا نے انکے فیصلے کی توثیق کر دی اور معینہ مدت کے بعد انکے آنگن میں بہار آ گئی۔ بیٹے کا نام انہوں نے کردار رکھا۔ ممتا اور محافظ تو گویا خود کو بھول ہی گئے۔ کردار سوتا تو سوتے، جاگتا تو بیدار رہتے، ہنستا تو قہقہے لگاتے روتا تو کراہنے لگتے، پیٹ بھرتا تو سیر ہوتے بھوکا ہوتا تو بھوک سہتے۔ وقت کے لمحے بھی اسکے کھلونے بن گئے اور وہ ان سے کھیلنے لگا۔ چار سال بیت گئے تو اس گھر میں سیرت آ گئی جس پر محافظ نے خدا کا الگ سے شکر ادا کیا۔

محافظ کی معاشی و فکری حفاظت اور ممتا کی آغوش میں کردار اور سیرت پروان چڑھنے لگے۔ بیشتر مقامات پر ممتا اور محافظ کا اتفاق پایا جاتا تھا لیکن ظاہر ہے اختلافِ رائے کا ہونا فطری سی بات ہے جسے دونوں گفتگو کے ذریعے حل کر لیا کرتے تھے۔ اصول سادہ تھا جو اپنے مؤقف پر استدلال کے ذریعے دوسرے کو قائل کر لے گا اسکی مانی جائے گی اور دوسرا سرِ تسلیم خم کر لے گا۔ سو یوں یہ مکان گھر ایک ادارہ بننے کی طرف تیزی سے گامزن تھا۔ جس میں خون کے رشتے محبت کی ڈور سے جڑے ہوئے تھے۔

کردار اور سیرت کی تعلیم کا مرحلہ آیا تو انہیں ملت ساز سکول میں داخلہ دلوایا گیا جہاں پر محترمہ تربیت صاحبہ، محترم شفقت صاحبہ، محترمہ بنیاد صاحبہ اور محترم معمار صاحب جیسے عظیم اساتذہ تھے۔ جنہوں نے کردار اور سیرت کو علم و عمل کی بہترین تعلیم دی۔ اسکول کی خاص بات یہ تھی کہ اسکے اساتذہ کتابوں عملی پیکر تھے۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی روشن مستقبل کالج و یونیورسٹی کے عظیم نظریاتی اساتذہ نے انہیں تعلیم دی جنہیں واقعی یہ احساس تھا کہ استاد ایک قوم کا معمار ہوتا ہے۔

کردار اور سیرت اپنی ماں ممتا کی علمی و عملی آغوش اور اپنے والد محافظ کے تحفظ میں گھر کے ادارے سے نکلے، ملت ساز سکول سے ہوتے ہوئے روشن مستقبل یونیورسٹی پہنچے وہاں سے دونوں نے سماجی تعمیر کے شعبوں میں سپیشلائزیشن کی اور پھر ان دونوں نے مل کر ایک سماج تعمیر کیا۔ جس کی بنیادی صفت انسانیت سے محبت ہے۔

ممتا اور محافظ دونوں چل بسے لیکن انکی محبت امر ہوگئی، انکا عشق جاوداں ہوگیا وہ کردار اور سیرت کی شکل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ کردار اور سیرت کو جب سماج کی تعمیر کے سلسلے میں ایوارڈ سے نوازا جا رہا تھا دونوں نے یہ ایوارڈ اپنی مرحومہ ماں ممتا اور مرحوم باپ محافظ کے نام کر دیا تو سامنے بیٹھی کردار کی بیٹی اور سیرت کا بیٹا تالیاں بجانے لگے۔ وہ سمجھے یہ ایوارڈ انکے نام کیے گئے کیونکہ کردار کی بیٹی کا نام ممتا اور سیرت کے بیٹے کا نام محافظ تھا۔ واقعی وہ صحیح سمجھے تھے۔ یہ سماج انہی کے نام ہے۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz